ہدایت ایک ایسا نور ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے صرف انہی دلوں میں اترتا ہے جو طلبِ حق، عاجزی، اور اخلاص رکھتے ہوں۔ قرآنِ مجید واضح کرتا ہے کہ ہدایت صرف ظاہری علم سے نہیں، بلکہ دل کی سچائی، تواضع اور اللہ کی طرف رجوع سے نصیب ہوتی ہے۔ جس دل میں کبر، ضد، یا دنیا کی محبت غالب ہو، وہاں ہدایت کا اثر نہیں ہوتا۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
إِنَّ فِى ذَٰلِكَ لَذِكْرَىٰ لِمَن كَانَ لَهُۥ قَلْبٌ أَوْ أَلْقَى ٱلسَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ
بے شک اس (قرآن) میں نصیحت ہے اس کے لیے جس کے پاس دل ہو، یا جو توجہ سے کان لگائے اور (دل سے) حاضر ہو۔
( ق- 37)
یہ آیت بتاتی ہے کہ ہدایت دل میں تب اترتی ہے جب انسان دل سے سننے والا ہو۔ غور و فکر، سنجیدگی، اور دل کی حاضری ضروری ہے۔ ضدی، غافل، یا متکبر دل ہدایت قبول نہیں کرتا۔
نبی کریم ﷺ کی ایک نہایت جامع اور گہری بصیرت والی نصیحت ہے ک، جو انسان کی اصلاح اور فساد کا مرکز دل کو قرار دیتی ہے۔
ألا وإن في الجسد مضغة، إذا صلحت صلح الجسد كله، وإذا فسدت فسد الجسد كله، ألا وهي القلب.
سنو! جسم میں ایک گوشت کا ٹکڑا ہے، اگر وہ درست ہو جائے تو سارا جسم درست ہو جاتا ہے، اور اگر وہ خراب ہو جائے تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے۔ سن لو! وہ دل ہے۔
(صحیح بخاری 52، صحیح مسلم 1599)
صحابہ کرامؓ کی زندگیاں اس بات کی گواہ ہیں کہ جب دل اللہ کے حضور جھک جاتے ہیں، تو ہدایت ان کی شخصیت بدل دیتی ہے، جیسا کہ عمرؓ، جن کا دل ہدایت کے نور سے منور ہوا تو دنیا کی تاریخ بدل گئی۔
آج کے انسان کے لیے بھی یہی سبق ہے کہ دل کو غرور، حسد، اور دنیا پرستی سے پاک کرے، اور اخلاص، عاجزی، اور طلبِ حق سے اللہ کی طرف متوجہ ہو، تب ہی قرآن کی ہدایت دل پر اثر کرے گی۔ ہدایت کا دروازہ ہمیشہ کھلا ہے، مگر وہی داخل ہوتا ہے جس کا دل اللہ کے لیے جھکا ہو۔