گیارہویں شریف منانا جائز ہے؟

“گیارہویں شریف” میں غیر اللہ کے نام پر نیاز دی جاتی ہے، مثلاً “عبدالقادرجیلانی کے نام کی نیاز” یہ “گیارہویں کی نیاز” کہلاتی ہے۔ جو کہ قرآن و سنت کی روشنی میں صریح شرک ہے۔
باقی گیارہویں منانا یعنی عبدالقادر جیلانی کی تاریخ وفات کے دن محفل کا انعقاد کرنا شرعی لحاظ سے بدعت ہے، کیونکہ قرآن و سنت اور صحابہ کرامؓ کے عمل میں کسی کی تاریخ وفات کے دن جلسہ کرنے کا کوئی ثبوت نہیں۔ نہ رسول اللہ ﷺ نے کسی صحابی کی تاریخِ وفات پر مخصوص عبادات، کھانے یا محافل کا اہتمام فرمایا، اور نہ خلفائے راشدین نے۔ آج نئی شریعت گھڑ لی گئی ہے۔ فرمایا

أَمْ لَهُمْ شُرَكَآءُ شَرَعُوا۟ لَهُم مِّنَ ٱلدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَنۢ بِهِ ٱللَّهُ
“کیا ان کے کچھ شریک ہیں جنہوں نے ان کے لیے دین میں ایسی چیزیں مقرر کر دیں جن کی اللہ نے اجازت نہیں دی؟”
(سورۃ الشورىٰ: 21)

گیارہویں کی محفل، نیاز، فاتحہ وغیرہ اللہ کی طرف سے مشروع نہیں، بلکہ خود ساختہ رسم ہے جو دین میں اضافہ ہے۔ خیرالقرون میں ابوبکرؓ، عمرؓ، عثمانؓ، علیؓ، اور دیگر صحابہ کرام یا کسی کی بھی وفات پر کوئی سالانہ محفل کا دن مقرر نہیں کیا۔ نبی ﷺ کے نواسوں حسنؓ، حسینؓ، یا حتیٰ کہ نبی ﷺ کے یومِ وفات پر بھی کوئی مخصوص عبادت یا نیاز صحابہؓ سے منقول نہیں۔

نبی ﷺ دو ٹوک فرما گئے کہ
قال رسول الله ﷺ: “من أحدث في أمرنا هذا ما ليس منه فهو ردّ”
“جس نے ہمارے اس دین میں کوئی نئی بات ایجاد کی جو اس میں سے نہیں، وہ مردود ہے۔”
(صحیح بخاری: 2697، صحیح مسلم: 1718)

گیارہویں جیسی رسومات دین میں شامل نہیں، لہٰذا وہ مردود بدعت شمار ہوتی ہیں۔

گیارہویں میں جو کچھ کیا جاتا ہے (مثلاً نیاز، چراغاں، فاتحہ) سب دین کے نام پر نئی ایجاد ہے۔ اندھیرے پر اندھیرا۔ اصل عبادت وہی ہے جو اللہ نے نازل کی اور نبی ﷺ نے سکھائی- گیارہویں کی نیاز حرام ہے۔ فرمایا

حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ… وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ
“تم پر حرام کیا گیا ہے مردار… اور وہ چیز جس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو۔”
(سورۃ المائدہ: 3)

اس آیت میں وہ تمام کھانے حرام قرار دیے گئے ہیں جو اللہ کے سوا کسی اور کے لیے مخصوص کیے جائیں۔ چاہے وہ ذبح ہو یا صرف نام کی نسبت ہو۔

واضح شرعی اصول یہ ہے کہ
قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ ٱلْعَـٰلَمِينَ، لَا شَرِيكَ لَهُ
“کہہ دو: میری نماز، قربانی، زندگی اور موت سب اللہ رب العالمین کے لیے ہے، اس کا کوئی شریک نہیں۔”
(سورۃ الانعام: 162-163)

اللہ تعالیٰ نے قربانی (نسک) اور نذر و نیاز کو خالص اپنے لیے مخصوص کیا ہے۔ غیر اللہ کے لیے کھانا دینا یا “فلاں بزرگ کے نام کی دیگ” پکانا عبادت میں شرک ہے۔

نبی ﷺ کی تعلیم میں یہ ہے کہ
لَعَنَ ٱللَّهُ مَن ذَبَحَ لِغَيْرِ ٱللَّهِ
“اللہ تعالیٰ نے اس پر لعنت فرمائی جو غیر اللہ کے لیے ذبح کرے۔”
(صحیح مسلم، حدیث: 1978)

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ غیر اللہ کے نام پر جانور ذبح کرنا یا کھانے پکا کر بانٹنا صریح حرام اور لعنت کا سبب ہے۔ لہذا نہ ایسی کسی محفل کا انعقاد کرنا یا غیر اللہ کی نیاز کرنا کسی بھی اعتبار سے جائز نہیں۔”

جواب لکھیں / رائے دیں

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Related Post

عورت کو طلاق دینے کے بعد اس سے اپنا دیا ہوا مال واپس لیا جاسکتا ہے؟عورت کو طلاق دینے کے بعد اس سے اپنا دیا ہوا مال واپس لیا جاسکتا ہے؟

عام حالات میں طلاق کے بعد عورت سے مال یا تحائف واپس لینا جائز نہیں ہے، کیونکہ یہ غیر منصفانہ اور اسلامی اصولوں کے خلاف

کیا بدر میں اللہ نے ہزار فرشتے مدد کے لئے نازل کئے تھے؟کیا بدر میں اللہ نے ہزار فرشتے مدد کے لئے نازل کئے تھے؟

جی ہاں، غزوۂ بدر کے موقع پر اللہ تعالیٰ نے ہزار فرشتوں کو اہلِ ایمان کی مدد کے لیے نازل فرمایا تھا۔ یہ واقعہ قرآنِ