ہر انسان سے صرف اس کے اپنے اعمال کا سوال کیا جائے گا، دوسروں کے اعمال کا نہیں۔ اس کو مختلف مقامات پر بیان فرمایا کہ
وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ ۚ
کوئی بوجھ اٹھانے والا، کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔
(الانعام – 164)
أَلَّا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ، وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَىٰ
کہ کوئی جان کسی اور کا بوجھ نہیں اٹھائے گی، اور انسان کے لیے وہی ہے جو اس نے خود کوشش کی۔
(النجم -38-39)
لَا يُكَلِّفُ ٱللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۚ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا ٱكْتَسَبَتْ ۗ
اللہ کسی جان کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا، جو نیکی کمائے وہ اسی کے لیے ہے اور جو بدی کمائے وہ اسی پر ہے۔
(البقرہ- 286)
استثنائی نوعیت (اگر کوئی دوسروں کو گمراہ کرے)
البتہ اگر کسی نے دوسروں کو جان بوجھ کر گمراہ کیا، تو پھر وہ اپنے گناہوں کے ساتھ ان کے گناہوں کا بھی بوجھ اٹھائے گا لیکن وہ دوسروں کے اصل اعمال کا نہیں بلکہ اپنی گمراہی پھیلانے کی ذمہ داری کا جواب دہ ہو گا۔
لِيَحْمِلُوا أَوْزَارَهُمْ كَامِلَةً يَوْمَ ٱلْقِيَـٰمَةِ وَمِنْ أَوْزَارِ ٱلَّذِينَ يُضِلُّونَهُم
تاکہ وہ قیامت کے دن اپنے بوجھ بھی پورے اٹھائیں، اور ان لوگوں کے بوجھ بھی جنہیں انہوں نے گمراہ کیا۔
(النحل-25)