امت کی دو قسمیں ہیں “امتِ دعوت” اور “امتِ اجابت” یہ تقسیم قرآن و حدیث کی روشنی میں واضح اور مدلل ہے۔ اس کی بنیاد توحید اور رسالت کی قبولیت یا انکار پر ہے، نہ کہ نسب یا ظاہری نسبت پر۔
امتِ دعوت یہ ہے کہ وہ تمام انسان جن تک دعوتِ اسلام پہنچی ہو یا پہنچائی جا رہی ہو، خواہ وہ ایمان لائیں یا نہ لائیں۔ یہود، نصاریٰ، مشرکین، ملحدین، شیعہ، قادیانی، روافض، مرجئہ، صوفیہ، حتیٰ کہ ظاہری مسلمان جو کلمہ پڑھ کر بھی شرک و بدعت میں مبتلا ہوں، دعوت کے مخاطب ضرور ہیں، لیکن اجابت کرنے والے نہیں۔ فرمایا کہ
قُلْ يَا أَيُّهَا ٱلنَّاسُ إِنِّي رَسُولُ ٱللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا
“کہہ دو: اے لوگو! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں”
(سورۃ الاعراف: 158)
یہ آیت واضح کرتی ہے کہ تمام انسان نبی ﷺ کی دعوت کے مخاطب ہیں، اسی لیے انہیں “امتِ دعوت” کہا جاتا ہے۔ مزید فرمایا کہ
وَمَا أَرْسَلْنَـٰكَ إِلَّا كَآفَّةً لِّلنَّاسِ
“ہم نے آپ کو تمام انسانوں کے لیے رسول بنا کر بھیجا ہے”
(سورۃ سبأ: 28)
لہٰذا جو نبی ﷺ کی رسالت کا پیغام سن رہا ہے، وہ “امتِ دعوت” میں شامل ہے، چاہے وہ ایمان نہ لائے۔
امتِ اجابت یہ ہے کہ وہ سب لوگ جنہوں نے نبی ﷺ کی دعوت اخلاص کے ساتھ قبول کر لیا، اور سچے دل سے “لا إله إلا الله محمد رسول الله” پر ایمان لا کر شرک و بدعت سے بچتے ہوئے نبی ﷺ کی اتباع کی۔ یہ “اجابت” یعنی لبیک کہنے والے ہیں، اور حقیقی معنوں میں “امتِ مسلمہ” ہیں۔
فرمایا کہ:
فَٱلَّذِينَ آمَنُوا۟ بِهِۦ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَٱتَّبَعُوا۟ ٱلنُّورَ ٱلَّذِيٓ أُنزِلَ مَعَهُۥٓ أُو۟لَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلْمُفْلِحُونَ
“تو وہ لوگ جو اس (رسول) پر ایمان لائے، اس کی تعظیم کی، اس کی مدد کی، اور اس روشنی (قرآن) کی پیروی کی جو اس کے ساتھ نازل ہوئی، وہی فلاح پانے والے ہیں”
(سورۃ الاعراف: 157)
نیز فرمایا کہ:
وَمَن يُطِعِ ٱللَّهَ وَٱلرَّسُولَ فَأُو۟لَـٰٓئِكَ مَعَ ٱلَّذِينَ أَنْعَمَ ٱللَّهُ عَلَيْهِم…
“اور جو اللہ اور رسول کی اطاعت کرے گا، وہ ان لوگوں کے ساتھ ہو گا جن پر اللہ نے انعام فرمایا…”
(سورۃ النساء: 69)
یہی امتِ اجابت ہے جو مانے، اطاعت کرے، اور دین کو خالص رکھے۔
باقی رہا کہ گمراہ فرقے امت میں شامل ہیں یا نہیں؟
تو عرض ہے کہ جو شخص اسلام کا دعویٰ کرے، لیکن اللہ کی وحدانیت، نبی ﷺ کی رسالت، اور قرآن و سنت کی اتباع کو چھوڑ کر بدعات، شرک، یا تحریفات میں مبتلا ہو، وہ ظاہری طور پر تو “امتِ دعوت” کا فرد ہو سکتا ہے، لیکن امتِ اجابت میں شامل نہیں ہوتا۔ جیسے کہ
قادیانی، جو نبی ﷺ کے بعد نبوت کے قائل ہیں، امتِ اجابت سے خارج ہیں۔
بریلوی، جو صوفیہ و قبوری، جو اللہ کے سوا اولیاء کو پکارتے ہیں، وہ بھی اجابت والے نہیں۔
شیعہ، جو کفر و شرک کرتے ہیں، صحابہؓ کو گالیاں دیتے ہیں اور قرآن میں تحریف کے قائل ہیں، امتِ اجابت سے خارج ہیں۔
اہل حدیث، جو قبر میں روح لوٹانے کے قائل ہیں، تعویذات کو درست مانتے ہیں یا ایسے ہی لوگوں کو رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں، طاغوت کا رد نہیں کرتے،امتِ اجابت سے خارج ہیں۔
“امت اجابت” کا مطلب ہر کلمہ گو نہیں، بلکہ وہی “امتِ اجابت” اصل امتِ مسلمہ ہے۔ جو توحید پر قائم، بدعت سے پاک، طواغیت کا کفر کرنے والے اور نبی ﷺ کی اطاعت میں ہو وہی نجات پائے گا۔ باقی سب “امتِ دعوت” میں شمار ہوتے ہیں، جن کے لیے اسلام کی دعوت، اور اصلاح کا دروازہ باقی ہے۔