جو شخص صحابہ کرامؓ کی گستاخی کرتا ہے، وہ سخت گمراہ، فاسق، بدعقیدہ اور بعض اوقات کفر تک پہنچ جاتا ہے خصوصاً جب وہ ان کی عدالت، ایمان، یا قربانیوں کا انکار کرے، یا ان پر طعن کرے جس سے دین کی بنیادیں متزلزل ہوں۔
وَٱلسَّـٰبِقُونَ ٱلْأَوَّلُونَ مِنَ ٱلْمُهَـٰجِرِينَ وَٱلْأَنصَارِ وَٱلَّذِينَ ٱتَّبَعُوهُم بِإِحْسَـٰنٖ رَّضِيَ ٱللَّهُ عَنْهُمْ
اور مہاجرین و انصار میں سے سبقت لے جانے والے، اور وہ جو ان کے نقش قدم پر احسان کے ساتھ چلے، اللہ ان سے راضی ہو گیا۔
(سورۃ التوبہ: 100)
جس سے اللہ راضی ہو، اس پر طعن کرنا دراصل اللہ کے فیصلے پر اعتراض ہے، جو کفر کی حد کو چھو سکتا ہے۔
“لا تسبوا أصحابي، فوالذي نفسي بيده، لو أنفق أحدكم مثل أُحد ذهبًا ما بلغ مد أحدهم ولا نصيفه”
میرے صحابہ کو برا نہ کہو، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم میں سے اگر کوئی احد پہاڑ جتنا سونا خرچ کرے تو ان کے ایک مد یا آدھے مد کے برابر نہیں ہو سکتا۔
(صحیح بخاری، حدیث: 3673)
گستاخِ صحابہ کو نبی ﷺ نے روکا، اور ان کی عظمت پر مہر لگا دی۔ صرف ذاتی بغض یا لاعلمی میں طعن کرے تو وہ فاسق و فاجر ہے، مگر کافر تب بنتا ہے جب اس کا انکار دین کی اصولی باتوں کو چھیڑ دے۔
گستاخِ صحابہ کے بارے میں حکم اس کی گستاخی کی نوعیت پر منحصر ہے۔ عام سب و شتم بہت بڑا گناہ اور گمراہی ہے، لیکن اگر اس سے دین کے اصول ٹوٹیں تو یہ صریح کفر ہے۔ اس لیے ہر مسلمان پر لازم ہے کہ صحابہ کرامؓ کی عزت کو دین کی علامت سمجھے، اور ان سے بغض رکھنے والوں سے بچے۔