قرآنِ مجید کے مطابق کوئی بھی انسان قیامت کے دن کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھا سکے گا۔ ہر شخص صرف اپنے عمل کا جواب دہ ہوگا، یہ عقیدہ ایصال ثواب کی جامع نفی بھی ہے یہ کہ کسی کی نیکی یا قربانی، دوسرے کے گناہوں کا کفارہ نہیں بنے گی۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا
وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌۭ وِزْرَ أُخْرَىٰ
اور کوئی بوجھ اٹھانے والا، دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔
(الأنعام 164)
یہ آیت بار بار قرآن میں دہرائی گئی ہے، تاکہ واضح ہو جائے کہ شفاعت، تعلق، نسب یا عقیدت کی بنیاد پر کسی کا گناہ معاف نہیں ہوگا ہر شخص کو اپنے کیے کا بدلہ خود ہی بھگتنا ہوگا۔
اللہ تعالیٰ ایک اور مقام پر فرماتا ہے
وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَـٰنِ إِلَّا مَا سَعَىٰ 39 وَأَنَّ سَعْيَهُۥ سَوْفَ يُرَىٰ 40 ثُمَّ يُجْزَىٰهُ ٱلْجَزَآءَ ٱلْأَوْفَىٰ
اور یہ کہ انسان کے لیے وہی کچھ ہے جس کی اس نے کوشش کی۔ اور اس کی کوشش دیکھی جائے گی، پھر اسے پورا بدلہ دیا جائے گا۔
(النجم 39-41)
یعنی کوئی نبی، ولی، یا بزرگ کسی کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے۔ انبیاء کا کام صرف ہدایت دینا تھا، نجات کا دار و مدار ایمان اور عمل پر ہے۔
لہذا دین اسلام کی روشنی میں قیامت کے دن ہر شخص اپنے اعمال کا ذمہ دار ہوگا۔ کوئی دوسرا نہ اس کے گناہ اٹھا سکتا ہے، نہ حساب سے بچا سکتا ہے۔ یہ عقیدہ انسان کو انفرادی ذمہ داری اور اللہ سے براہِ راست تعلق کا شعور دیتا ہے۔ جو توحید کی روح ہے۔