بہت اہم اور نکتہ خیز بات ہے اور اس کا جواب قرآن کی روشنی میں بالکل واضح ہے۔
وَإِن كَادُوا۟ لَيَفْتِنُونَكَ عَنِ ٱلَّذِىٓ أَوْحَيْنَآ إِلَيْكَ لِتَفْتَرِىَ عَلَيْنَا غَيْرَهُۥ ۖ وَإِذًۭا لَّٱتَّخَذُوكَ خَلِيلًۭا وَلَوْلَآ أَن ثَبَّتْنَـٰكَ لَقَدْ كِدتَّ تَرْكَنُ إِلَيْهِمْ شَيْـًۭٔا قَلِيلًا
اور یقیناً وہ (کفار) تمہیں اُس چیز سے بہکانے کو تھے جو ہم نے تم پر وحی کی، تاکہ تم ہماری طرف کوئی اور بات گھڑ لو، اور تب وہ تمہیں اپنا دوست بنا لیتے۔ اور اگر ہم تمہیں ثابت قدم نہ رکھتے، تو تم ضرور تھوڑا سا اُن کی طرف مائل ہو ہی جاتے۔
الإسراء (73-74)
معلوم ہوا کہ کفارِ مکہ نے رسول اللہ ﷺ پر اتنا شدید دباؤ ڈالا کہ قرآن کہتا ہے قریب تھا کہ تم ان کی طرف کچھ مائل ہو جاتے، اگر ہم تمہیں ثابت قدم نہ رکھتے
کفار چاہتے تھے کہ رسول ﷺ وحی میں کچھ نرمی کریں۔ دین کو تھوڑا سا بدل دیں تاکہ وہ بھی ساتھ چلیں، آپ ﷺ سماجی یا سیاسی رعایتیں دیں۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کو استقامت عطا کی، اگر اللہ نہ تھامتا تو بہ طورِ انسان، ہلکی سی جھکاؤ کی صورت بن سکتی تھی۔
لیکن اللہ نے ایسا ہونے نہیں دیا یہیں اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ یہ آیات نبی ﷺ کی بشریت کو واضح کرتی ہیں مگر ساتھ ہی نبوت کی عصمت (پاکیزگی) کی بھی تصدیق کرتی ہیں۔
اس لئے کہ فرمایا
لَقَدْ كِدتَّ = قریب تھا کہ…
مگر واقعہ ہوا نہیں، کیونکہ ثَبَّتْنَـٰكَ = ہم نے تمہیں ثابت قدم رکھا
بحرحال نبی ﷺ پر کفار کا دباؤ بہت طاقتور تھا۔ مگر اللہ کی مدد سے وہ راہِ حق پر قائم رہے۔
یہ آیات امت کے لیے بھی استقامت، حق پر ڈٹے رہنے، اور باطل سے سمجھوتہ نہ کرنے کا عظیم پیغام ہیں