جی ہاں، کفار (منکرینِ آخرت) قیامت کے دن جب حقیقت سامنے آ جائے گی اور وہ اللہ کے عذاب کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے،
تو وہ بار بار دنیا میں واپس جانے کی تمنا کریں گے تاکہ ایمان لا کر نیک عمل کریں۔
اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں کئی مقامات پر ان کی اس بے فائدہ حسرت کو بیان فرمایا ہے۔
وَلَوْ تَرَىٰٓ إِذِ ٱلْمُجْرِمُونَ نَاكِسُوا۟ رُءُوسِهِمْ عِندَ رَبِّهِمْ رَبَّنَآ أَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَٱرْجِعْنَا نَعْمَلْ صَـٰلِحًا إِنَّا مُوقِنُونَ
اور کاش! تم دیکھو جب گناہگار لوگ اپنے رب کے سامنے سر جھکائے کھڑے ہوں گے (کہہ رہے ہوں گے)‘اے ہمارے رب! اب ہم دیکھ چکے اور سن چکے، تو ہمیں واپس بھیج دے تاکہ ہم نیک عمل کریں، ہمیں یقین ہو چکا ہے۔
(السجدہ – 12)
حَتَّىٰٓ إِذَا جَآءَ أَحَدَهُمُ ٱلْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ٱرْجِعُونِ لَعَلِّىٓ أَعْمَلُ صَـٰلِحًۭا فِيمَا تَرَكْتُ ۚ كَلَّآ ۚ إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَآئِلُهَا ۖ وَمِن وَرَآئِهِم بَرْزَخٌ إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ
یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کو موت آتی ہے تو وہ کہتا ہے
‘اے میرے رب! مجھے واپس لوٹا دے۔ شاید کہ میں اس چیز میں نیک عمل کروں جسے میں چھوڑ آیا تھا۔ ہرگز نہیں! یہ تو محض ایک بات ہے جو وہ کہہ رہا ہے، اور ان کے پیچھے ایک پردہ ہے (عالمِ برزخ)، قیامت کے دن تک۔
(المومنون – 99، 100)
ایمان، توبہ، اور نیک اعمال کا موقع زندگی میں ہے، موت کے بعد صرف حسرت باقی رہ جائے گی۔ قیامت کا انکار نادانی ہے، اور اس کا انجام پچھتاوا اور ناکامی ہے۔