کسی ولی یا بزرگ کے مزار پر جانا نہ قرآن میں حج کے برابر کہا گیا ہے، اور نہ نبی ﷺ کی کسی صحیح حدیث میں اس کی کوئی مثال یا فضیلت بیان ہوئی ہے۔ اسلام میں حج اور عمرہ اللہ کے مقرر کردہ شعائر میں سے ہیں، جن کا وقت، مقام، اور طریقہ واضح طور پر شریعت میں متعین ہے۔ اولیاء اللہ سے محبت ایمان کا حصہ ضرور ہے، مگر ان کی قبور کو زیارت کا مرکز بنا کر حج یا عمرہ کے برابر سمجھنا دین میں نئی بات (بدعت) ہے، جس کا قرآن و سنت سے کوئی تعلق نہیں۔
وَأَذِّنْ فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجَالًا وَعَلَىٰ كُلِّ ضَامِرٍ يَأْتِينَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ
اور لوگوں میں حج کے لیے اعلان کر دو، وہ تیرے پاس پیدل آئیں گے اور ہر دبلے اونٹ پر آئیں گے، ہر دور دراز راستے سے۔
(الحج 27)
یہ اعلان ابراہیم علیہ السلام کے ذریعے کیا گیا، اور اللہ نے حج کو اپنے لیے خاص عبادت قرار دیا، جو صرف بیت اللہ میں مخصوص ایام اور مناسک کے ساتھ ادا کی جاتی ہے۔ اس میں کسی مزار، دربار یا قبر کی زیارت شامل نہیں ہے۔
وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا
اور اللہ کے لیے لوگوں پر اس گھر (کعبہ) کا حج فرض ہے جو اس تک راستہ پا سکے۔
(آل عمران 97)
یہ آیت واضح کرتی ہے کہ حج صرف بیت اللہ سے متعلق ہے۔ جو شخص یہ گمان کرتا ہے کہ کسی ولی کے مزار پر جانے سے حج یا عمرہ کا ثواب ملتا ہے، وہ اللہ کی شریعت میں اپنی طرف سے اضافہ کر رہا ہے، جو بدعت اور گمراہی ہے۔
من أحدث في أمرنا هذا ما ليس منه فهو ردٌّ
جس نے ہمارے دین میں کوئی نئی بات نکالی جو اس میں نہیں تھی، وہ مردود ہے۔
(صحیح بخاری 2697، صحیح مسلم 1718)
یہ حدیث بتاتی ہے کہ دین میں وہی عبادت قابلِ قبول ہے جس کی بنیاد قرآن و سنت پر ہو۔ کسی مزار پر جانے کو حج کے برابر سمجھنا سراسر دین میں نئی بات ہے۔
اولیاء اللہ اللہ کے نیک بندے تھے، ان کا احترام ایمان کا تقاضا ہے، مگر ان کی قبروں کو دین کا مرکز بنانا، یا ان کی زیارت کو حج کے برابر سمجھنا شرک اور بدعت کے دروازے کھولتا ہے۔ دین میں اصل عبادت اللہ کے بتائے ہوئے طریقے پر ہے، نہ کہ من گھڑت رسوم پر۔ ہمیں چاہیے کہ قرآن و سنت کے مطابق دین پر چلیں، نہ کہ جذبات یا لوگوں کی باتوں پر۔ اللہ کی رضا صرف اسی میں ہے کہ اس کی عبادت، اسی کے طریقے پر کی جائے۔