مسلمان کے لیے خوف صرف اللہ تعالیٰ سے ہونا چاہیے، کیونکہ وہی سب سے بڑا طاقتور اور قادر مطلق ہے۔ قرآن مجید اور احادیث رسول ﷺ میں یہ بات واضح کی گئی ہے کہ مومن کو دشمن کے ظاہری طاقت یا وسائل سے مرعوب نہیں ہونا چاہیے۔ البتہ، مسلمانوں کو دشمن کی جنگی تیاریوں اور سازوسامان کا ادراک ضرور رکھنا چاہیے تاکہ ان کے مقابلے کے لیے بہترین حکمت عملی اپنائی جا سکے۔ کفار کا بڑا لشکر دیکھ کر تو مومنوں کا ایمان اور زیادہ ہو جانا چایئے۔جیسے فرمایا کہ
اَلَّذِيْنَ قَالَ لَھُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْا لَكُمْ فَاخْشَوْھُمْ فَزَادَھُمْ اِيْمَانًا ڰ وَّقَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰهُ وَنِعْمَ الْوَكِيْلُ
ان (مؤمنوں سے لوگوں نے کہا بلاشبہ لوگوں نے تمہارے مقابلہ کیلئے ایک بڑا لشکر جمع کیا ہے لہٰذا ان سے بچوتو ان کا ایمان اور بھی زیادہ ہوگیا اور (مؤمن ) کہنے لگے ہمارے لئے تو اللہ ہی کافی ہے اور وہ بہت اچھا کارساز ہے۔
(آل عمران – 173)
دشمن کے وسائل سے ڈرنا مومن کی شان کے خلاف ہے، لیکن ان کی طاقت اور حکمت عملی کو سمجھنا اور اس کے مطابق اپنی تیاری کرنا اسلامی تعلیمات کا حصہ ہے۔ یہ خوف نہیں بلکہ حکمت ہے۔
خوف صرف اس وقت قابل مذمت ہے جب یہ ایمان کی کمزوری اور اللہ پر بھروسے کی کمی کی وجہ سے ہو۔
مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنی صلاحیتوں کو بہتر بنائیں، علم و ٹیکنالوجی میں ترقی کریں اور دفاعی تیاریوں میں مضبوط ہوں۔
اجتماعی طور پر امت مسلمہ کے اندر اتحاد پیدا کریں تاکہ دشمن کے عزائم کو ناکام بنایا جا سکے۔