ولی اللہ کی بیعت کوئی واجب نہیں، بلکہ بیعت صرف نبی ﷺ کے ہاتھ پر واجب تھی، اور نبی کے بعد صرف خلیفۂ مسلمین کی بیعت شرعی حیثیت رکھتی ہے۔ ولی اللہ کی بیعت کو واجب کہنا بدعت اور غلو ہے، جس کی قرآن و حدیث میں کوئی بنیاد نہیں۔
إِنَّ ٱلَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ ٱللَّهَ
“بے شک جو آپ (ﷺ) سے بیعت کرتے ہیں وہ درحقیقت اللہ سے بیعت کرتے ہیں”
(سورۃ الفتح: 10)
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ بیعت صرف رسول ﷺ اور خلفاء راشدین سے خاص تھی۔
نبی ﷺ نے فرمایا:
“من بايع إمامًا فأعطاه صفقة يده وثمرة قلبه، فليطعه إن استطاع”
“جس نے کسی امام (خلیفہ) کی بیعت کی اور اسے دل سے قبول کیا، تو وہ اس کی اطاعت کرے”
(صحیح مسلم، حدیث: 1844)
یہاں بیعت کا ذکر حاکم المسلمین (امیر/خلیفہ) کے لیے ہے، نہ کہ کسی ولی یا صوفی کے لیے۔
ولی اللہ کی بیعت کو “واجب” کہنا بدعت ہے۔ نبی ﷺ کے بعد کسی کو بیعتِ اطاعت دینا صرف خلیفہ کے لیے جائز ہے۔
ولی اللہ اگر تقویٰ والا ہے، تب بھی اس کی اطاعت قرآن و سنت کی دلیل پر ہی فرض ہے۔ صوفیاء کے ہاتھ پر بیعت دین کا فریضہ نہیں، نہ قرآن نے اس کا حکم دیا یہ بدعت ہے۔
صحابہ کرامؓ نے ابوبکرؓ، عمرؓ، عثمانؓ، علیؓ جیسے خلفاء کی بیعت کی، مگر کسی ولی، فقیر یا بزرگ کی بیعت کو واجب نہیں سمجھا۔ اگر یہ دین ہوتا تو صحابہؓ ضرور عمل کرتے۔
لہذا بیعتِ ولی کو “واجب” کہنا غلو ہے۔ جو لوگ اولیاء کے ہاتھ پر بیعت کو فرض یا نجات کا ذریعہ سمجھتے ہیں، وہ اللہ کی شریعت میں اضافہ کر رہے ہیں۔ نجات قرآن و سنت کی پیروی میں ہے، نہ کہ کسی پیر یا ولی کی بیعت میں۔