خطا ہر بشر سے ممکن ہے، حتیٰ کہ انبیاء علیہم السلام سے بھی۔ وہ معصوم ہوتے ہیں گناہِ کبیرہ اور دین میں غلطی سے، مگر اجتہادی خطائیں ان سے بھی ہوئیں، جن پر اللہ نے فوراً تنبیہ کی اور اصلاح فرمائی۔ لہٰذا اولیاء جو نبی بھی نہیں، ان سے خطا کا ہونا بدرجہ اولیٰ ممکن ہے۔
آدم علیہ السلام سے خطا ہوئی اسکا ذکر قرآن ہوں یوں ہوا کہ
وَعَصَىٰٓ ءَادَمُ رَبَّهُ فَغَوَىٰ
“اور آدم نے اپنے رب کی نافرمانی کی، تو وہ بھٹک گئے”
(سورۃ طٰہٰ: 121)
یہ اجتہادی لغزش تھی، جس پر انہوں نے توبہ کی، اور اللہ نے معاف فرمایا۔
نبی ﷺ کو نابینا صحابی پر عتاب فرمایا
عَبَسَ وَتَوَلَّىٰٓ أَن جَآءَهُ ٱلْأَعْمَىٰ
“آپ نے تیوری چڑھائی اور منہ موڑا، کیونکہ اس کے پاس ایک نابینا آیا”
(سورۃ عبس: 1–2)
نبی ﷺ کی ترجیح پر وحی سے اصلاح کی گئی۔
ولی اللہ نہ نبی ہے، نہ اسکی معصومت پر نص ہے۔ اگر وہ قرآن و سنت کے خلاف بات کرے، یا خواب، کشف، یا الہام کو دلیل بنائے، تو اس کی خطا ہے، اس پر گرفت بھی ہے اور اصرار پر فتوی بھی ہے۔
اس کی پیروی تب ہی درست ہے جب اس کا قول صحابہؓ اور نبی ﷺ کے طریقے کے مطابق ہو
نبی ﷺ نے فرمایا:
“علیكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهديين من بعدي”
“تم پر لازم ہے میری سنت اور میرے بعد خلفائے راشدین کی سنت کی پیروی”
(سنن ابی داود، حدیث: 4607)
ولی کی عظمت اتباعِ حق میں ہے، نہ کہ اس کے اقوال کو وحی یا معصومیت کا درجہ دینا۔ جو ولی خطا کرے، اور رجوع نہ کرے، دلیل نہ مانے، وہ اللہ کا ولی نہیں بلکہ نفس اور بدعت کا پیرو ہے اور اولیاء الشیطان میں سے ہے۔