نبی کریم ﷺ کے نام کے ساتھ “سیدنا” (ہمارے سردار) کہنا جائز و مستحب ہے، لیکن واجب یا ضروری نہیں۔ صحابۂ کرامؓ نے بعض اوقات “سیدنا” کہا اور بعض اوقات صرف “یا رسول اللہ” یا “یا نبی اللہ” جیسے القابات استعمال کیے۔
مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَآ أَحَدٍۢ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَـٰكِن رَّسُولَ ٱللَّهِ وَخَاتَمَ ٱلنَّبِيِّـۧنَ
“محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، بلکہ اللہ کے رسول اور تمام نبیوں کے خاتم ہیں۔”
(سورۃ الأحزاب: 40)
اللہ تعالیٰ نے نبی ﷺ کو “رسول اللہ” اور “خاتم النبیین” کہا، محمد ﷺ کے لئے “سیدنا” کا اطلاق قرآن میں نہیں آیا، البتہ یحییٰؑ کے بارے میں ہے، کہ اللہ نے انہیں فرمایا:
“أَنَّ اللَّهَ يُبَشِّرُكَ بِيَحْيَىٰ مُصَدِّقًا بِكَلِمَةٍ مِّنَ اللَّهِ وَسَيِّدًا وَحَصُورًا وَنَبِيًّا مِّنَ الصَّالِحِينَ”
بے شک اللہ آپکو یحییٰؑ کی خوشخبری دیتا ہے، جو اللہ کے ایک کلمہ (عیسیٰؑ) کی تصدیق کرنے والا ہوگا،اور سردار (سَیِّدًا) ہوگا، اور نفس پر قابو رکھنے والا (حَصُورًا) ہوگا، اور نبی ہوگا صالحین میں سے۔(آل عمران: 39)
“سیداً” یعنی “سردار”۔ یہاں “سید” لفظ اللہ نے استعمال کیا، جو ثابت کرتا ہے کہ ادب کے ساتھ کسی کو “سید” کہنا شرعی طور پر جائز ہے۔
جیسے خود نبی ﷺ نے فرمایا کہ
قال رسول الله ﷺ: “أنا سيد ولد آدم يوم القيامة، ولا فخر”
’’نبی کریم ﷺ نے فرمایا: میں قیامت کے دن آدم کی اولاد کا سردار ہوں، اور یہ فخر کی بات نہیں۔‘‘
(صحیح مسلم: 2278)
خود نبی ﷺ نے اپنی سید (سردار) ہونے کی خبر دی، اس لیے اگر کوئی مسلمان ادب و محبت سے “سیدنا محمد ﷺ” کہے تو یہ درست ہے لیکن واجب نہیں ہے۔