کیا نبی ﷺ کی ولادت کے دن جشن منانا جائز ہے؟

نبی کریم ﷺ کی محبت ایمان کا جز ہے، مگر محبت کا تقاضا اتباعِ سنت ہے، نہ کہ خود ساختہ رسومات۔ نبی ﷺ کی ولادت کے دن جشن منانا قرآن و سنت سے ثابت نہیں، اور نہ ہی صحابہ، تابعین، یا ائمہ و محدثین نے ایسا کیا۔ یہ عمل نصرانیوں کی پیروی پر مبنی ہے، جنہوں نے عیسیٰؑ کے یومِ ولادت کو مذہبی تہوار بنا دیا۔ جبکہ قرآن اتباع پر زور دیتا ہے۔

قُلْ أَطِيعُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ ۖ فَإِن تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْكَافِرِينَ
’’کہہ دیجیے: اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو، پھر اگر وہ منہ موڑیں تو بے شک اللہ کافروں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘
(سورۃ آل عمران: 32)

اللہ کی محبت اور نبی ﷺ کی اطاعت صرف اتباعِ وحی اور سنت سے ممکن ہے، اختراعات سے نہیں۔ نبی کریم ﷺ نے اپنی ولادت کے دن جشن نہیں منایا، بلکہ صرف روزہ رکھا، فرمایا:

“ذَاكَ يَوْمٌ وُلِدْتُ فِيهِ…”
“یہ وہ دن ہے جس میں میری پیدائش ہوئی تھی…”
(صحیح مسلم، حدیث: 1162)

آپ ﷺ نے پیدائش کا شکر ادا کرنے کے لیے خود نفلی روزہ رکھا، اور صحابہ کو اسکا بھی حکم نہ دیا اور نہ کوئی میلاد کا جلوس، نہ چراغاں، نہ مخصوص کھانے۔

صحابہ کرامؓ نے نبی ﷺ سے اپنی جان سے بڑھ کر آپ سے محبت کی، مگر کسی ایک صحابیؓ سے بھی میلاد النبی منانا ثابت نہیں۔ نہ ابوبکرؓ، نہ عمرؓ، نہ عثمانؓ، نہ علیؓ، نہ طلحہؓ و زبیرؓ، نہ سعدؓ و سعیدؓ، نہ حسنؓ و حسینؓ، نہ ابن عباسؓ سے۔

اگر یہ عمل نیکی ہوتا تو وہ سبقت کرتے، اور اسے ضرور اپناتے۔

یہ خالص بدعت اور مشابہتِ نصاریٰ ہونے کی وجہ سے قابل ردّ ہے۔
مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هٰذَا مَا لَيْسَ فِيهِ فَهُوَ رَدٌّ
“جس نے ہمارے دین میں کوئی نیا کام ایجاد کیا جو اس میں نہیں تھا، وہ مردود ہے۔”
(صحیح بخاری: 2697، صحیح مسلم: 1718)

مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ
“جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی، وہ انہی میں سے ہے۔”
(ابو داؤد، حدیث: 4031)

میلاد کا جشن نصارٰی کے کرسمس کی نقل ہے، جس میں وہ عیسیٰؑ کی ولادت مناتے ہیں۔ نبی ﷺ نے ہمیں ایسے افعال سے سختی سے روکا ہے۔ نبی ﷺ سے محبت کا سچا ثبوت سنت کی پیروی ہے۔ میلاد کے نام پر جلوس، نعت، چراغاں، کھانے سب بدعت میں داخل ہے۔ دین مکمل ہو چکا، جس میں میلاد کا جشن شامل نہ تھا

“اليوم أكملتُ لكم دينكم…”
“آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا…”
(سورۃ المائدہ: 3)

سچی محبت یہ ہے کہ ان کی سنت کو زندہ کیا جائے، نہ کہ نئے تہوار ایجاد کیے جائیں۔
اسلام میں دین اللہ کی طرف سے ہے، جس مین دو عیدیں ہیں یہ نئی عید “عید میلاد النبی” بدعت ہے اور بدعات مردود ہیں، چاہے نیت کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہو۔

جواب لکھیں / رائے دیں

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Related Post

قرآن میں ضعیفوں، یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ حسن سلوک کی کیا فضیلت ہے؟قرآن میں ضعیفوں، یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ حسن سلوک کی کیا فضیلت ہے؟

قرآنِ مجید میں ضعیفوں، یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ حسن سلوک کو محض ایک سماجی ذمہ داری نہیں بلکہ اللہ کے قرب اور حقیقی دینداری