اسلام میں عبادات اور تعظیم کے تمام طریقے صرف اللہ کے لیے خاص ہیں۔ ہاتھ باندھ کر کھڑے ہونا، جھکنا، سجدہ کرنا یا مخصوص ادب کے انداز اپنانا۔ اگر یہ طریقے اللہ کی عبادت سے ماخوذ ہوں اور وہی طریقے کسی قبر یا غیر اللہ کے لیے اپنائے جائیں، تو یہ عمل شرک اور بدعت شمار ہوگا، بالخصوص اگر اس میں عقیدہ شامل ہو کہ قبر والے کو نفع یا ضرر کا اختیار ہے۔
قرآن کی واضح رہنمائی:
وَأَنَّ ٱلْمَسَـٰجِدَ لِلَّهِ فَلَا تَدْعُوا۟ مَعَ ٱللَّهِ أَحَدًۭا
“اور بے شک تمام مساجد اللہ ہی کے لیے ہیں، لہٰذا اللہ کے ساتھ کسی اور کو مت پکارو۔”
(سورۃ الجن: 18)
جب عبادت گاہیں بھی صرف اللہ کے لیے خاص ہیں، تو پھر عبادت والے انداز (جیسے ہاتھ باندھنا) بھی کسی غیر اللہ کے لیے اختیار کرنا شرک اور بدعت ہی ہے۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
“لا تُطروني كما أطرت النصارى ابن مريم، فإنما أنا عبد، فقولوا عبد الله ورسوله”
“مجھے اس طرح نہ بڑھاؤ جس طرح نصرانیوں نے عیسیٰ ابن مریم کو بڑھایا، میں تو صرف اللہ کا بندہ ہوں، پس مجھے اللہ کا بندہ اور رسول کہو۔”
(صحیح بخاری، حدیث: 3445)
اس حدیث میں نبی ﷺ نے باالفاظ دیگر اپنی قبر، شخصیت یا مقام کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے سے منع فرمایا۔ ہاتھ باندھ کر قبر کے سامنے کھڑا ہونا بھی اسی غلو اور اطاعت کا مظہر ہو سکتا ہے۔
نبی ﷺ کی وفات کے بعد صحابہ کرامؓ مدینہ میں موجود تھے، مگر کسی نے آپ ﷺ کی قبر پر ہاتھ باندھ کر کھڑے ہو کر ادب کا مظاہرہ نہیں کیا۔ نہ ابوبکرؓ، نہ عمرؓ، نہ اہل بیتؓ نے۔
یہ اس بات کی قطعی دلیل ہے کہ قبروں پر عبادت یا صلوۃ جیسے انداز اختیار کرنا صحابہ کے طریقے کے خلاف ہے۔ اگر عقیدہ یہ ہو کہ اس قبر والے کے لیے کھڑے ہونا عبادت یا ثواب ہے، تو یہ شرک فی العبادت ہے۔
ہمیں چاہیے کہ محبت کے ساتھ نبی ﷺ کی سنت پر عمل کریں، نہ کہ ان کی قبر کے سامنے ایسے انداز اختیار کریں جو عبادت کے مشابہ ہوں۔ قبر کی زیارت سنت ہے، مگر اس کے آداب شریعت کے مطابق ہوں، نہ کہ جذبات کے مطابق۔ توحید کا تقاضا ہے کہ عبادت، عاجزی، اور تعظیم صرف اللہ کے لیے ہو، اور ہر وہ انداز جس میں عبادت کا رنگ ہو، وہ غیر اللہ کے لیے منع ہے۔