اسلام کا بنیادی عقیدہ یہ ہے کہ اللہ ہی خالق و معبود ہے اور انبیاء کرام علیہم السلام اللہ کے بندے اور برگزیدہ رسول ہوتے ہیں، جو بشر ہوتے ہیں۔ نبی ﷺ کی بشریت کو بیان کرنا ان کی تنقیص نہیں، بلکہ قرآن کی پیروی ہے۔ درحقیقت، بشریت کا انکار یا اس پر شرمانا تو غلو اور بدعت کی علامت ہے، جس سے نبی ﷺ کو اللہ کا شریک بنانے کا خطرہ پیدا ہوتا ہے۔
جب قرآن نے واضح اعلان کروا دیا کہ
قُلْ إِنَّمَآ أَنَا۠ بَشَرٌۭ مِّثْلُكُمْ يُوحَىٰٓ إِلَىَّ
’’(اے نبی!) کہہ دیجیے: میں تم جیسا ہی بشر ہوں، میری طرف وحی کی جاتی ہے۔‘‘
(سورۃ الکہف: 110)
وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌۭ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ ٱلرُّسُلُۚ
’’اور محمد ﷺ تو صرف رسول ہیں، ان سے پہلے بھی بہت سے رسول گزر چکے۔‘‘
(سورۃ آل عمران: 144)
قرآن مجید بار بار نبی ﷺ کی بشریت کو واضح کرتا ہے تاکہ لوگ آپ ﷺ کو الٰہی صفات سے پاک جانیں اور شرک میں نہ پڑیں۔
نبی کریم ﷺ نے خود بھی فرمایا:
“لا تطروني كما أطرت النصارى عيسى ابن مريم، فإنما أنا عبد، فقولوا: عبد الله ورسوله”
’’مجھے حد سے نہ بڑھاؤ جیسے نصرانیوں نے عیسیٰ ابن مریم کے بارے میں غلو کیا، میں صرف اللہ کا بندہ ہوں، پس مجھے عبداللہ اور رسول کہو۔‘‘
(صحیح بخاری، حدیث: 3445)
نبی ﷺ کے بشر ہونے پر ایمان لانا، نبوت کی اصل شرط ہے، کیونکہ اگر وہ بشر نہ ہوتے تو ان پر وحی نازل نہ ہوتی اور ان کی اقتداء ممکن نہ ہوتی۔
نبی ﷺ کو بشر کہنے پر “گستاخی” کا الزام لگانا قرآن و سنت سے جہالت ہے۔ غلو سے روکنے کے لیے نبی ﷺ نے خود بار بار اپنی بشریت کو ظاہر فرمایا۔ لہذا بشریت کا انکار گستاخی نہیں بلکہ شرک کی راہ ہموار کرنا ہے، اور بشریت کا اقرار ادبِ نبوت اور صحیح عقیدے کی علامت ہے۔