قرآن و سنت کی روشنی میں نبی کریم ﷺ نے کبھی قبروں پر جا کر مدد نہیں مانگی، نہ اپنی زندگی میں اور نہ صحابہ کرامؓ کو اس کی اجازت دی۔ بلکہ آپ ﷺ نے توحید کا اتنا مضبوط درس دیا کہ قبروں سے مدد مانگنے، انہیں وسیلہ بنانے، یا ان سے حاجت طلب کرنے کو صریح گمراہی اور شرک کے قریب قرار دیا۔
قُلْ إِنَّمَآ أَدْعُوا۟ رَبِّى وَلَآ أُشْرِكُ بِهِۦٓ أَحَدًۭا
کہہ دو میں تو صرف اپنے رب کو پکارتا ہوں، اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا۔
(الجن 20)
نبی ﷺ خود اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے تھے، مصیبتوں میں صرف اپنے رب سے فریاد کرتے، اور یہی تعلیم دی کہ حاجت روا اور مشکل کشا صرف اللہ ہے۔ کسی ولی، نبی یا فوت شدہ انسان کو پکارنا، ان سے فریاد کرنا، نبی ﷺ کے طریقے کے خلاف ہے۔
نبی ﷺ نے فرمایا
إِذَا سَأَلْتَ فَاسْأَلِ ٱللَّهَ، وَإِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنۢ بِٱللَّهِ
جب بھی مانگو تو اللہ سے مانگو، اور جب مدد طلب کرو تو اللہ ہی سے کرو۔
(ترمذی 2516)
یہ حدیث ایک بنیادی اصول ہے۔ دعا، فریاد، مدد یہ سب صرف اللہ کے لیے مخصوص ہیں۔
قبر پر دعا کا حکم کیا ہے؟
نبی ﷺ قبروں پر جانے کی اجازت دیتے تھے عبرت حاصل کرنے اور دعا کرنے کے لیے، نہ کہ مردوں سے دعا مانگنے کے لیے۔ آپ ﷺ نے فرمایا
زوروا القبور فإنها تذکر الآخرة
قبروں کی زیارت کیا کرو، کیونکہ یہ آخرت کی یاد دلاتی ہیں۔
(مسلم 976)
لیکن آپ ﷺ نے سختی سے منع فرمایا کہ
لَا تَجْعَلُوا قَبْرِي عِيدًا، وَلَا تُصَلُّوا عَلَيَّ عِنْدَهُ
میری قبر کو عید (اجتماع اور عبادت کی جگہ) نہ بنا لینا، اور میرے پاس آ کر مجھ پر درود نہ بھیجنا (بلکہ دور سے پڑھنا).
(ابو داؤد 2042)
نبی ﷺ نے کبھی قبروں سے مدد نہیں مانگی، بلکہ اس سے روکا، اور یہ تعلیم دی کہ ہر ضرورت، ہر فریاد، ہر مدد صرف اللہ سے مانگی جائے۔ قبروں سے مانگنا نہ نبی ﷺ کا طریقہ ہے، نہ صحابہؓ کا، بلکہ یہ توحید کے خلاف ایک عمل ہے۔ توحید کا تقاضا ہے کہ إِيَّاكَ نَسْتَعِينُ صرف اللہ کے لیے ہو، اور ہر قبر، ہر بشر، ہر وسیلے سے دل کو خالی کر کے صرف رب سے جُڑا جائے۔