اسلام میں نبی کریم ﷺ اللہ کے برگزیدہ بشر ہیں، جنہیں وحی، نبوت، اور ہدایت کے لیے چنا گیا۔ اگر نبی ﷺ کو “نورانی بشر” کہا جائے تو اس کا مطلب عام طور پر یہ لیا جاتا ہے کہ آپ ﷺ مافوق البشر یا خالص نورانی مخلوق ہیں۔ یہ تصور قرآن کے سراسر خلاف ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے خود نبی ﷺ کو بشر کہا ہے۔
قُلْ إِنَّمَآ أَنَا۠ بَشَرٌۭ مِّثْلُكُمْ يُوحَىٰٓ إِلَىَّ أَنَّمَآ إِلَـٰهُكُمْ إِلَـٰهٌۭ وَٰحِدٌۖ
’’کہہ دیجیے: میں تم جیسا ہی بشر ہوں، (فرق یہ ہے کہ) میری طرف وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا معبود صرف ایک ہے۔‘‘
(سورۃ الکہف: 110)
یہاں اللہ نے نبی ﷺ کو “بشر مثلکم” یعنی تم جیسا انسان کہا اگر آپ ﷺ “نورانی بشر” یا مافوق البشر ہوتے تو قرآن اس کی وضاحت ضرور کرتا۔
نبی ﷺ نے اپنی بشریت کا اظہار متعدد بار کیا:
“إنما أنا بشر مثلكم أنسى كما تنسون”
“میں تم جیسا ہی بشر ہوں، جیسا تم بھولتے ہو ویسے میں بھی بھولتا ہوں۔”
(صحیح مسلم: 572)
نبی ﷺ نے اپنی بشریت، بھول، مرض، مشقت، نیند، نکاح، کھانے، تجارت، اور جہاد کے عمل سے عملی طور پر بشر ہونے کا ثبوت دیا۔
قَدْ جَآءَكُم مِّنَ ٱللَّهِ نُورٌۭ وَكِتَـٰبٌۭ مُّبِينٌۭ
’’یقیناً تمہارے پاس اللہ کی طرف سے نور اور واضح کتاب آ چکی ہے۔‘‘
(سورۃ المائدہ: 15)
یہاں “نور” سے مراد قرآن ہے، نہ کہ کوئی نورانی جسم۔
رسول اللہ ﷺ محض بشر تھے نہ کہ “نورانی بشر” یہ عقیدہ رکھنا کہ نبی ﷺ مافوق البشر یا نور سے بنے ہوئے تھے یہ عقیدہ توحید کے خلاف ہے۔ “نورانی بشر” جیسی اصطلاح دین میں نئی گھڑی گئی بات ہے، جس کی نہ قرآن میں اصل ہے، نہ سنت میں، نہ صحابہؓ کے فہم میں۔