کیا نبی ﷺ عالم الغیب یا ہر جگہ حاضر و ناظر ہیں؟

اسلام میں عقیدہ توحید کا تقاضا ہے کہ علمِ غیب، ہر جگہ موجودگی اور دلوں کے حال جاننا صرف اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں۔ اگر کوئی مخلوق کو، خواہ وہ نبی ہو یا ولی، ان صفات کا حامل سمجھے، تو یہ توحید کے منافی ہے۔ نبی کریم ﷺ کی عظمت اپنی جگہ، مگر وہ اللہ کے بندے اور رسول ہیں، نہ کہ عالم الغیب اور ہر جگہ حاضر و ناظر۔

قرآن مجید میں فرمایا:
“ذٰلِكَ مِنْ اَنْۢبَاۗءِ الْغَيْبِ نُوْحِيْهِ اِلَيْكَ ۭ وَمَا كُنْتَ لَدَيْهِمْ اِذْ يُلْقُوْنَ اَقْلَامَھُمْ اَيُّھُمْ يَكْفُلُ مَرْيَمَ ۠وَمَا كُنْتَ لَدَيْهِمْ اِذْ يَخْتَصِمُوْنَ”
(اے نبی ﷺ !) یہ (واقعات) غیب کی خبروں میں سے ہیں جو ہم آپ کی طرف وحی فرماتے ہیں اور آپ اُن کے پاس نہ تھے اُس وقت جب وہ اپنے قلم ڈال رہے تھے کہ مریم (علیھاالسّلام) کی سرپرستی کون کرے گا اور آپ اُن کے پاس نہ تھے جب وہ (آپس میں) جھگڑ رہے تھے۔
(آل عمران – 44)

بیعت رضوان کے پس منظر میں بھی رسول اللہ ﷺ اپنی حیات میں ہر جگہ حاضر و ناظر نہ تھے اور قصاص عثمانؓ پر 1400 صحابہ سے بیعت لی۔ اگر ہر جگہ حاضر و ناظر ہوتے اور غیب دان ہوتے تو بتا دیتے کہ عثمانؓ زندہ ہے یہ قتل کی خبر جھوٹی افواہ ہے۔

نوٹ کرلیں کہ جب نہ نبی ﷺ اپنی پیدائش سے پہلے ہر جگہ حاضر و ناظر نہیں تھے اور نہ ہی اپنی حیات میں ہر جگہ حاضر و ناظر تھے تو وفات کے بعد کیسے ہوسکتے ہیں؟

نبی کریم ﷺ کو ہر جگہ حاضر و ناظر ماننا نہ قرآن سے ثابت ہے، نہ سنت سے، نہ صحابہ کی روش سے۔ یہ عقیدہ اللہ کی صفات میں مخلوق کو شریک کرنے کا دروازہ ہے، جو توحید کے خلاف ہے۔ نبی ﷺ سے محبت اور ادب ضرور ہو، مگر عقیدہ خالص اللہ کی وحدانیت پر قائم رہنا چاہیے۔

اس غلط عقیدے کی نفی نبی کریم ﷺ نے خود کی، جب آپ ﷺ سے غیب یا انجام کے بارے میں سوال ہوا:

“وَاللَّهِ مَا أَدْرِي وَأَنَا رَسُولُ اللَّهِ، مَا يُفْعَلُ بِي”
“اللہ کی قسم! میں، حالانکہ اللہ کا رسول ہوں، نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا کیا جائے گا۔”
(صحیح بخاری، حدیث 6604)

اگر نبی ﷺ ہر جگہ حاضر و ناظر ہوتے تو صحابہ کرامؓ بدر، احد یا غزوہ خندق میں مدد کے لیے “یا رسول اللہ” پکارتے،ایسا نہیں تھا بلکہ وہ اللہ ہی کو پکارتے تھے۔ نبی ﷺ کی وفات کے بعد کسی صحابی نے کوئی فریاد یا مدد کی آواز نہیں لگائی۔

لہٰذا اگر کوئی عقیدہ رکھے کہ نبی ﷺ ہر جگہ موجود ہیں، ہر پکار سن سکتے ہیں، ہر وقت حاضر و ناظر ہیں تو یہ صفاتِ الٰہی کو مخلوق کی طرف منسوب کرنے کے مترادف ہے، جو کہ شرک ہے۔ اگر کوئی ایسا لفظ استعمال کرے تو اس کا عقیدہ صاف اور سنت کے مطابق ہونا لازمی ہے۔

علمِ غیب، دلوں کے راز، اور ہر جگہ موجودگی صرف اللہ کی صفات ہیں۔ اگر کسی نبی یا ولی کو بھی ان صفات میں شریک مانا جائے تو یہ شرک ہے۔ نبی کریم ﷺ اللہ کے محبوب رسول ہیں، مگر اللہ کے شریک نہیں۔ ان کو ہر وقت ہر جگہ حاضر و ناظر سمجھنا، یا ہر دل کا حال جاننے والا ماننا اللہ کی صفات میں شرک ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

“أَلَمْ تَرَ أَنَّ ٱللَّهَ يَعْلَمُ مَا فِى ٱلسَّمَـٰوَٰتِ وَمَا فِى ٱلْأَرْضِ ۖ مَا يَكُونُ مِن نَّجْوَىٰ ثَلَـٰثَةٍ إِلَّا هُوَ رَابِعُهُمْ وَلَا خَمْسَةٍ إِلَّا هُوَ سَادِسُهُمْ وَلَآ أَدْنَىٰ مِن ذَٰلِكَ وَلَآ أَكْثَرَ إِلَّا هُوَ مَعَهُمْ أَيْنَ مَا كَانُوا۟ ۖ ثُمَّ يُنَبِّئُهُم بِمَا عَمِلُوا۟ يَوْمَ ٱلْقِيَـٰمَةِ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ بِكُلِّ شَىْءٍ عَلِيمٌۭ”

“کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ آسمانوں اور زمین کی ہر چیز کو جانتا ہے؟ کوئی تین آدمیوں کی سرگوشی نہیں کرتے مگر وہ چوتھا ان کے ساتھ ہوتا ہے، اور نہ پانچ ہوتے ہیں مگر وہ چھٹا ان کے ساتھ ہوتا ہے، اور نہ اس سے کم اور نہ زیادہ، مگر وہ ان کے ساتھ ہوتا ہے جہاں کہیں بھی ہوں۔ پھر قیامت کے دن وہ انہیں بتا دے گا جو انہوں نے کیا۔ بے شک اللہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔”
(سورۃ المجادلہ، آیت 7)

یہ آیت صرف اللہ کے لیے علمِ مطلق، موجودگیِ مطلق اور ہمہ وقت معیت کو ثابت کرتی ہے۔ نہ نبی کریم ﷺ، نہ جبریلؑ، اور نہ کوئی ولی اس درجے کی موجودگی رکھتا ہے۔ اگر نبی ﷺ ہر جگہ حاضر و ناظر ہوتے، تو اللہ تعالیٰ یہ نہ فرماتا کہ “جہاں کہیں بھی ہوں اللہ ان کے ساتھ ہوتا ہے”، بلکہ نبی ﷺ کا بھی ذکر ہوتا۔

صحابہ کرامؓ کی زندگی میں بھی یہ بات واضح ہے کہ انہوں نے نبی ﷺ کو وفات کے بعد حاضر و ناظر نہیں سمجھا۔ ابو بکرؓ نے وفاتِ نبوی کے موقع پر فرمایا:

“من كان يعبد محمدًا فإن محمدًا قد مات، ومن كان يعبد الله فإن الله حي لا يموت”
“جو محمد ﷺ کی عبادت کرتا تھا، وہ جان لے کہ محمد ﷺ وفات پا چکے ہیں، اور جو اللہ کی عبادت کرتا ہے وہ جان لے کہ اللہ زندہ ہے، اسے موت نہیں۔”
(صحیح بخاری، حدیث 3667)

لہذا نبی کریم ﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیں، مگر ہر جگہ حاضر و ناظر صرف اللہ ہے، جیسا کہ سورۃ المجادلہ کی آیت 7 میں تفصیل سے بیان ہوا۔نبی ﷺ کو صفاتِ الوہیت اللہ کی طرف منسوب کرنا شرک ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ان کی محبت میں حد سے نہ بڑھیں، بلکہ وہی عقیدہ رکھیں جو قرآن، حدیث، اور صحابہؓ نے سکھایا۔

جواب لکھیں / رائے دیں

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Related Post