نبی کریم ﷺ وفات پا چکے ہیں اور آپ ﷺ کی روح برزخ اللہ کی اعلی جنتوں میں داخل ہو چکی ہے، جیسا کہ تمام انبیاء کرامؑ کے ساتھ ہوتا ہے۔ آپ ﷺ کی دنیاوی قبر میں زندہ نہیں ہیں۔ اگر کوئی شخص یہ عقیدہ رکھے کہ آپ ﷺ قبر میں زندہ ہیں اور سنتے ہیں، جواب دیتے ہیں، تصرف کرتے ہیں، یا معاذ اللہ ازواج سے شب باشی کرتے ہیں تو یہ عقیدہ شرک ہے اور اہانتِ نبوت ہے۔
رسول اللہ ﷺ کی وفات سے مفر کیوں ہو کہ قرآن واضح فرماتا ہے کہ:
إِنَّكَ مَيِّتٌۭ وَإِنَّهُم مَّيِّتُونَ
’’(اے نبی!) بے شک آپ بھی وفات پانے والے ہیں اور وہ (لوگ) بھی وفات پانے والے ہیں۔‘‘
(سورۃ الزمر: 30)
وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍۢ مِّن قَبْلِكَ ٱلْخُلْدَۖ أَفَإِيْن مِّتَّ فَهُمُ ٱلْخَـٰلِدُونَ
’’ہم نے آپ سے پہلے کسی بشر کے لیے دائمی زندگی نہیں رکھی، اگر آپ وفات پا جائیں تو کیا یہ ہمیشہ رہیں گے؟‘‘
(سورۃ الانبیاء: 34)
یہ آیات اس بات کی صراحت کرتی ہیں کہ نبی ﷺ بھی دوسرے انسانوں کی طرح دنیا سے جا چکے ہیں۔
نبی ﷺ کی وفات کے بعد ابوبکر صدیقؓ نے فرمایا:
“من كان يعبد محمداً فإن محمداً قد مات، ومن كان يعبد الله فإن الله حي لا يموت”
’’جس نے محمد ﷺ کی عبادت کی تھی تو محمد ﷺ وفات پا چکے ہیں، اور جس نے اللہ کی عبادت کی، تو اللہ زندہ ہے، کبھی نہیں مرے گا۔‘‘
(صحیح بخاری: 3667)
صحابہ کرامؓ نے نبی ﷺ کی وفات کو حقیقی دنیاوی موت کے طور پر تسلیم کیا، اور قبر میں کسی دنیاوی قسم کی زندگی یا تصرفات کا عقیدہ نہ رکھا۔
اسی طرح ہر مومن کی روح کو برزخ میں زندگی دی جاتی ہے۔ نبی ﷺ کی بھی برزخی حیات حاصل ہے نہ نہ مدینہ والی قبر میں بلکہ اعلی جنتوں میں۔ اس میں زندوں کا کلام سننا، جواب دینا یا تصرف نہیں اور نہ روح لوٹ کر جسم میں آتی ہے بلکہ یہ روز قیامت جسد عنصری میں داخل کی جائے گی۔ لہذا محمد ﷺ بشر تھے، وفات پا گئے، اور اللہ ہی ہمیشہ زندہ ہے۔