قرآنِ مجید کے مطابق قیامت کے دن شفاعت (سفارش) کا حق صرف اللہ کے اذن و اجازت سے ہوگا۔ کوئی نبی، ولی یا فرشتہ اپنی مرضی سے کسی کے حق میں سفارش نہیں کرسکتا، نہ کسی کو نجات دلا سکتا ہے، جب تک اللہ خود اجازت نہ دے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
مَن ذَا ٱلَّذِى يَشْفَعُ عِندَهُۥٓ إِلَّا بِإِذْنِهِ
کون ہے جو اس کے پاس سفارش کرے، مگر اس کی اجازت کے ساتھ؟
(البقرہ 255)
یعنی شفاعت اللہ کے قبضے میں ہے، کوئی بھی ذات اس کی اجازت کے بغیر سفارش کرنے کی طاقت نہیں رکھتی۔
ایک اور مقام پر فرمایا
وَكَم مِّن مَّلَكٍۢ فِى ٱلسَّمَـٰوَٰتِ لَا تُغْنِى شَفَـٰعَتُهُمْ شَيْـًٔا إِلَّا مِنۢ بَعْدِ أَن يَأْذَنَ ٱللَّهُ لِمَن يَشَآءُ وَيَرْضَىٰ
اور کتنے ہی فرشتے آسمانوں میں ہیں جن کی سفارش کچھ بھی نفع نہیں دیتی، مگر اس کے بعد کہ اللہ اجازت دے جس کے لیے چاہے اور جس سے راضی ہو۔
(النجم 26)
یعنی نہ صرف اجازت شرط ہے بلکہ اللہ کی رضا بھی ضروری ہے۔ سفارش اُنہی کے لیے ہوگی جن سے اللہ راضی ہو گا یعنی موحد، فرمانبردار، اور گناہوں سے توبہ کرنے والے۔
اللہ تعالیٰ نے مزید فرمایا
يَوْمَ لَا تَمْلِكُ نَفْسٌۭ لِّنَفْسٍۢ شَيْـًۭٔا ۖ وَٱلْأَمْرُ يَوْمَئِذٍۭ لِّلَّهِ
اس دن کوئی جان کسی جان کے لیے کچھ اختیار نہیں رکھے گی، اور اُس دن فیصلہ اللہ ہی کا ہوگا۔
(الانفطار 19)
قیامت کے دن نبی، ولی یا فرشتہ صرف اسی وقت شفاعت کر سکیں گے جب اللہ تعالیٰ اجازت دے گا اور سفارش کیے جانے والے سے راضی ہوگا۔ یہ عقیدہ ہمیں یہ سمجھاتا ہے کہ نجات کا دروازہ اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے، اس لیے ہمیں اسی سے لو،لگن لگانی چاہیے اور ہر حال میں شرک سے بچ کر توحید پر قائم رہنا چاہیے۔