موت ایک اٹل حقیقت ہے، اور کوئی بھی انسان یا مخلوق اس سے نہیں بچ سکتا۔ قرآن و حدیث میں بارہا موت کی حقیقت کو بیان کیا گیا ہے تاکہ انسان اس دنیا کی عارضی زندگی کو سمجھ سکے اور آخرت کی تیاری کرے۔ قرآن میں منافقین کو مخاطب کر کے اللہ نے فرمایا
اَيْنَ مَا تَكُوْنُوْا يُدْرِكْكُّمُ الْمَوْتُ وَلَوْ كُنْتُمْ فِيْ بُرُوْجٍ مُّشَـيَّدَةٍ ۭ وَاِنْ تُصِبْھُمْ حَسَـنَةٌ يَّقُوْلُوْا هٰذِهٖ مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ ۚ وَاِنْ تُصِبْھُمْ سَيِّئَةٌ يَّقُوْلُوْا هٰذِهٖ مِنْ عِنْدِكَ ۭقُلْ كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ ۭ فَمَالِ هٰٓؤُلَاۗءِ الْقَوْمِ لَا يَكَادُوْنَ يَفْقَهُوْنَ حَدِيْثًا
تم جہاں بھی ہو ( وقت مقرر پر موت تمہیں آکر پکڑے گی اگرچہ تم مضبوط قلعوں میں ہی کیوں نہ ہو اور اگر ان (منافقین) کو کوئی اچھائی پہنچتی کی طرف سے ہے اور اگر انہیں کوئی برائی پہنچتی ہے تو کہتے ہیں کہ یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے ہے، آپ فرمادیجیے یہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ یہ ایک بات بھی سمجھنے کے قریب نہیں لگتے۔
(النساء – 78)
لہذا موت سے فرار ممکن نہیں ہے بلکہ ہمیشہ موت کو یاد رکھنا چاہیے۔ ہر نفس نے موت کا مزہ چکھنا ہے اور موت سے بچنے کا کوئی راستہ نہیں ہے فرمایا
قُلْ اِنَّ الْمَوْتَ الَّذِيْ تَفِرُّوْنَ مِنْهُ فَاِنَّهٗ مُلٰقِيْكُمْ ثُمَّ تُرَدُّوْنَ اِلٰى عٰلِمِ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ
کہہ دو بے شک وہ موت جس سے تم بھاگتے ہو، وہ تمہیں آ کر رہے گی۔ پھر تم واپس لوٹائے جاؤ گے اس کے پاس جو ہر چھپی اور ظاہر بات کو جانتا ہے۔
(الجمعہ – 8)
الغرض کہ ہر نفس کو اللہ کے سامنے پیش ہونا ہے۔ اس لیے موت سے بچنے کی فکر کرنے کے بجائے، آخرت کی تیاری اور اللہ کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔