جی ہاں، قرآن میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین کے باطل معبودوں کو برا بھلا کہنے سے منع فرمایا ہے تاکہ وہ جہالت میں آ کر اللہ کو برا نہ کہیں۔
وَلَا تَسُبُّوا۟ ٱلَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ ٱللَّهِ فَيَسُبُّوا۟ ٱللَّهَ عَدْوًۢا بِغَيْرِ عِلْمٍ ۗ كَذَٰلِكَ زَيَّنَّا لِكُلِّ أُمَّةٍ عَمَلَهُمْ ثُمَّ إِلَىٰ رَبِّهِم مَّرْجِعُهُمْ فَيُنَبِّئُهُم بِمَا كَانُوا۟ يَعْمَلُونَ
اور تم ان (معبودوں) کو برا بھلا نہ کہو جنہیں یہ لوگ اللہ کے سوا پکارتے ہیں، ورنہ وہ بھی جہالت اور دشمنی میں حد سے بڑھ کر اللہ کو برا بھلا کہیں گے۔ اسی طرح ہم نے ہر قوم کے لیے ان کے عمل (بظاہر) خوشنما بنا دیے ہیں، پھر سب کو اپنے رب کی طرف لوٹنا ہے، وہ انہیں ان کے اعمال سے آگاہ کر دے گا۔
1- باطل معبودوں کو برا بھلا نہ کہنے کی حکمت
اگر مسلمان مشرکین کے جھوٹے معبودوں کو گالیاں دیں گے، تو اس کا رد عمل یہ ہوگا کہ مشرک بھی اللہ کو (نعوذ باللہ) برا بھلا کہیں گے۔
اس سے معاشرتی کشیدگی اور نفرت بڑھے گی اور دینِ اسلام کی دعوت متاثر ہوگی۔
2- مشرکین کے عمل ان کے لیے مزین کر دیے گئے
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہر قوم کو ان کے اپنے اعمال اچھے لگتے ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ مشرکین اپنی گمراہی میں اتنے راسخ ہو چکے ہیں کہ وہ اپنی باطل پرستی کو درست سمجھتے ہیں۔
3-حقیقی فیصلہ قیامت کے دن ہوگا
سب کو اللہ کے پاس لوٹ کر جانا ہے، جہاں ان کے تمام اعمال کا حساب ہوگا۔
جو حق پر ہوگا، وہ کامیاب ہوگا، اور جو گمراہی میں ہوگا، وہ خسارے میں جائے گا۔
بحرحال اسلام ہمیں حسن اخلاق اور حکمت کے ساتھ دین کی دعوت دینے کی تعلیم دیتا ہے۔ کسی کے غلط عقائد پر تنقید ضرور کرنی چاہیے، مگر گالی گلوچ اور سخت زبان سے گریز کرنا چاہیے، تاکہ لوگ حق کی طرف مائل ہوں۔ اللہ کے فیصلے پر بھروسہ رکھنا چاہیے، کیونکہ آخری فیصلہ وہی کرے گا۔