قرآنِ کریم کی روشنی میں مسلمانوں کو کفار کے ساتھ سختی یا نرمی برتنے کا معاملہ حالات، نیت، اور تعلق کی نوعیت پر مبنی ہوتا ہے۔ اسلام ایک عدل و انصاف اور حکمت و موعظت کا دین ہے، جس میں نہ اندھی سختی کی تعلیم ہے، نہ بےجا نرمی۔ فرمایا
مُّحَمَّدٌۭ رَّسُولُ ٱللَّهِ ۚ وَٱلَّذِينَ مَعَهُۥٓ أَشِدَّآءُ عَلَى ٱلْكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَيْنَهُمْ۔۔۔
محمد (ﷺ) اللہ کے رسول ہیں، اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار پر سخت اور آپس میں رحم دل ہیں۔
(الفتح – 29)
ایک مقام پر فرمایا کہ
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قَاتِلُوا الَّذِيْنَ يَلُوْنَكُمْ مِّنَ الْكُفَّارِ وَلْيَجِدُوْا فِيْكُمْ غِلْظَةً ۭ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِيْنَ
اے ایمان والو ! اُن کافروں سے قتال کرو جو تمھارے قریب ہیں اور چاہیے کہ وہ تمھارے اندر سختی پائیں اور جان لو کہ بےشک اللہ پرہیزگاروں کے ساتھ ہے۔
(التوبہ – 123)
کفر پر نرم رویہ اپنانا ممنوع ہے جب وہ دین کو نقصان پہنچانے کی کوشش کریں۔
کب نرمی برتی جائے؟
وہ کفار جو دشمنی پر نہیں بلکہ پرامن تعلق میں ہیں فرمایا
اللَّهُ لَا يَنْهَاكُمْ عَنِ ٱلَّذِينَ لَمْ يُقَـٰتِلُوكُمْ فِى ٱلدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُم مِّن دِيَـٰرِكُمْ أَن تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوٓا۟ إِلَيْهِمْ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ يُحِبُّ ٱلْمُقْسِطِينَ
اللہ تمہیں ان لوگوں سے نیکی اور انصاف برتنے سے نہیں روکتا جو تم سے دین کے معاملے میں نہیں لڑتے اور نہ ہی تمہیں تمہارے گھروں سے نکالتے ہیں۔ بے شک اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔
(الممتحنہ – 8)