اسلام میں ہتھیاروں کی نمائش کوئی فخر یا غرور کے طور پر نہیں، بلکہ احتیاط، تیاری اور دفاعی طاقت کے اظہار کے طور پر قابلِ حکمت عمل سمجھا جاتا ہے۔ قرآن اور سنت سے ہمیں یہ پیغام ملتا ہے کہ مسلمان کو ہر وقت اپنی حفاظت اور امت کے دفاع کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
وَأَعِدُّوا۟ لَهُم مَّا ٱسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍۢ وَمِن رِّبَاطِ ٱلْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِۦ عَدُوَّ ٱللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ
اور تم ان (کفار) کے مقابلے کے لیے جتنی طاقت مہیا کر سکو اور جنگی گھوڑوں (یا سامان) کی تیاری رکھو، تاکہ اس کے ذریعے اللہ کے دشمن اور اپنے دشمن پر رعب ڈال سکو۔
(الانفال – 60)
جب مسلمان اپنی دفاعی صلاحیت ظاہر کرتے ہیں، تو دشمن خوف زدہ ہوتا ہے اور حملہ کرنے سے پہلے کئی بار سوچتا ہے اور کمزور امت یا قوم کو اکثر دشمن تر نوالہ سمجھتے ہیں، لیکن ہتھیاروں کی موجودگی اور تیاری ایک نفسیاتی دیوار بن جاتی ہے اور اس سے مسلمانوں میں دفاعِ امت کا شعور بیدار رہتا ہے، اور وہ غفلت میں مبتلا نہیں ہوتے۔ معاشرے کے اندرونی یا بیرونی شرپسندوں کو یہ اشارہ ملتا ہے کہ مسلمان بیدار اور چوکنے ہیں۔ یہ نمائش فخر، غرور یا دوسروں کو ڈرانے کے لیے نہیں ہونی چاہیے بلکہ نیت دفاع اور اللہ کے حکم پر عمل ہو۔ اگر نیت بدل جائے تو یہ عمل باعثِ فتنہ بن سکتا ہے۔