کیا مزار پر چڑھاوے چڑھانا شرعی عمل ہے؟

قرآن مجید اور سنت نبوی ﷺ کی روشنی میں مزاروں پر چڑھاوے چڑھانا نہ صرف غیر شرعی عمل ہے بلکہ عقیدہ توحید کے منافی ہے۔ اسلام کی بنیاد خالص اللہ کی عبادت پر ہے، اور کسی نیک بندے، ولی، یا نبی کی قبر پر چڑھاوے چڑھانا، نذریں دینا، یا منتیں ماننا ایسے اعمال میں شامل ہیں جو رفتہ رفتہ شرک کی طرف لے جاتے ہیں۔ دین اسلام نے عقیدے میں ہر اس دراڑ کو بند کیا ہے جو بندے اور اللہ کے درمیان کسی واسطے یا وسیلے کو واجب یا مستقل ذریعہ بنائے۔

وَأَنْ لَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا
اور یہ کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔
( النور 55)

نبی کریم ﷺ نے فرمایا
لَعْنَ اللَّهُ الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى، اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسَاجِدَ
اللہ یہود و نصاریٰ پر لعنت کرے، جنہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہیں بنا لیا۔
(صحیح بخاری 1330)

یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ نبی ﷺ نے قبروں کے ارد گرد عبادات، چڑھاوے، یا منتوں سے منع فرمایا تاکہ شرک کا کوئی راستہ نہ کھلے۔

مزار پر چڑھاوے چڑھانا جیسے کھانے کی چیزیں، پیسے، یا دیگر نذرانے دینا یہ اعتقاد پیدا کرتا ہے کہ قبر میں مدفون شخص ان اشیاء سے خوش ہو کر مدد کرے گا، یا دعاؤں کو اللہ تک پہنچائے گا۔ یہ تصور قرآن کے اس حکم سے ٹکراتا ہے

إِن تَدْعُوهُمْ لَا يَسْمَعُوا۟ دُعَآءَكُمْ ۖ وَلَوْ سَمِعُوا۟ مَا ٱسْتَجَابُوا۟ لَكُمْ ۖ
اگر تم انہیں پکارو تو وہ تمہاری دعا نہ سنیں گے، اور اگر سن بھی لیں تو قبول نہ کر سکیں گے۔
(فاطر 14)

اسلام عقیدے کی پاکیزگی اور عبادت کی خالصیت کا دین ہے۔ مزاروں پر چڑھاوے چڑھانے کی رسم نبی ﷺ، صحابہ کرام، تابعین یا ائمہ دین سے ثابت نہیں۔ یہ غیر اسلامی روایات سے در آئی ہیں اور توحید کی بنیاد کو مجروح کرتی ہیں۔ نجات کا راستہ صرف اللہ سے مانگنے اور اسی کے آگے جھکنے میں ہے۔

لہٰذا، مزاروں پر چڑھاوے چڑھانا شرعی نہیں بلکہ توحید کے منافی عمل ہے، جس سے بچنا ہر مسلمان پر لازم ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Related Post

قرآن کے مطابق دنیا کی زندگی کی زینت کیا ہے اور اللہ کے ہاں بہترین عمل کون سا ہے؟قرآن کے مطابق دنیا کی زندگی کی زینت کیا ہے اور اللہ کے ہاں بہترین عمل کون سا ہے؟

مال اور اولاد بلاشبہ دنیا کی رونق اور دلکشی کا ذریعہ ہیں لیکن وہ فانی ہیں، اور ایک دن چھن جائیں گے۔ فرمایا ٱلْمَالُ وَٱلْبَنُونَ زِينَةُ ٱلْحَيَوٰةِ ٱلدُّنْيَا ۖ وَٱلْبَـٰقِيَـٰتُ

اگر آباؤ اجداد کافر ہوں تو کیا ان سے دینی دوستی رکھی جاسکتی ہے؟اگر آباؤ اجداد کافر ہوں تو کیا ان سے دینی دوستی رکھی جاسکتی ہے؟

قرآن مجید واضح طور پر بتاتا ہے کہ اگر باپ،دادا یا کوئی قریبی رشتہ دار کفر اختیار کرے اور دین کے خلاف دشمنی پر اتر آئے، تو دینی دوستی اور

جو ایمان لانے کے بعد کفر کرے اسکا کیا انجام ہے؟جو ایمان لانے کے بعد کفر کرے اسکا کیا انجام ہے؟

قرآن مجید میں ایمان لانے کے بعد دوبارہ کفر اختیار کرنے والوں کے انجام کو سخت الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ ایسے لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا