اسلام میں عبادات اور دینی اعمال کی بنیاد قرآن اور سنتِ نبوی ﷺ پر ہے۔ جو عمل نہ قرآن سے ثابت ہو، نہ رسول اللہ ﷺ سے، نہ صحابہ کرامؓ سے، وہ بدعت شمار ہوتا ہے۔ مزاروں پر چراغ جلانا، شمعیں روشن کرنا، یا روشنیوں کی قندیلیں لٹکانا یہ سب جاہلیت کے رسوم میں سے ہیں، جو دین میں بعد میں داخل کی گئیں، اور توحید کی روح کے خلاف ہیں۔
وَمَآ ءَاتَىٰكُمُ ٱلرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَىٰكُمْ عَنْهُ فَٱنتَهُوا۟ ۚ
اور رسول تمہیں جو کچھ دیں وہ لے لو، اور جس چیز سے منع کریں اس سے رک جاؤ۔
( الحشر 7)
اللہ اور رسول کی اطاعت ہی دین ہے۔
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ أَطِيعُوا۟ ٱللَّهَ وَأَطِيعُوا۟ ٱلرَّسُولَ
اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو…
(النساء 59)
نہ نبی ﷺ نے، نہ صحابہؓ نے، اور نہ ہی خلفائے راشدین نے کبھی کسی قبر پر چراغ جلایا۔ بلکہ یہ عمل بعد کے فرقوں، متصوفہ اور مشرکانہ رجحانات کے اثر سے دین میں داخل ہوا، جو قبروں کو عبادت گاہ بنانے کا دروازہ کھولتا ہے۔
بدعت اور گمراہی کا نتیجہ آگ کے سوا کچھ نہیں۔ فرمایا
كل بدعة ضلالة، وكل ضلالة في النار
ہر بدعت گمراہی ہے، اور ہر گمراہی جہنم میں لے جاتی ہے۔
(مسلم)
مزاروں پر چراغ جلانا یا روشنی کرنا شریعت میں نہ صرف ثابت نہیں، بلکہ حرام اور لعنت کا باعث ہے۔ یہ اعمال نہ تو عبادت ہیں، نہ ذریعۂ تقرب، بلکہ توحید میں بگاڑ اور قبر پرستی کا راستہ کھولنے والے عوامل ہیں۔
جو نبی ﷺ نے نہ کیا، اور نہ سکھایا، وہ دین نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا
نبی جو دیں، اسے لے لو، اور جس سے روکیں، رک جاؤ۔
(الحشر 7)
باقی سب بدعت ہے، اور بدعت دین نہیں بلکہ دین کی بگاڑ ہے۔