جی ہاں، مرنے کے بعد قبر میں اور روز قیامت میں بھی سوالات کے وقت اللہ تعالیٰ اہلِ ایمان کو ثابت قدمی عطا فرماتا ہے۔ یہ بات قرآنِ مجید میں واضح الفاظ میں بیان کی گئی ہے۔
يُثَبِّتُ ٱللَّهُ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ بِٱلْقَوْلِ ٱلثَّابِتِ فِى ٱلْحَيَوٰةِ ٱلدُّنْيَا وَفِى ٱلْـَٔاخِرَةِ ۖ وَيُضِلُّ ٱللَّهُ ٱلظَّـٰلِمِينَ ۚ وَيَفْعَلُ ٱللَّهُ مَا يَشَآءُ
اللہ ایمان والوں کو قولِ ثابت (یعنی کلمۂ توحید) پر دنیا اور آخرت میں ثابت قدم رکھتا ہے،
اور اللہ ظالموں کو گمراہ کر دیتا ہے، اور اللہ جو چاہتا ہے وہی کرتا ہے۔
(ابرہیم – 27)
قولِ ثابت
اس سے مراد ہے لَا إِلٰهَ إِلَّا ٱللَّهُ وہ کلمہ جو ایمان کی بنیاد ہے۔
دنیا میں ثبات
دین پر استقامت، حق پر ڈٹے رہنا، فتنوں میں مضبوطی۔
آخرت میں ثبات
روح سے برزخ کے سوالات کے وقت (جب فرشتے پوچھیں گے ربک من؟ دینک ما؟ نبیّک من؟)،
اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو درست اور پختہ جواب کی توفیق دیتا ہے۔ اسی طرح قیامت کے روز بھی۔