اسلام میں وسیلہ کا مفہوم ایک گہرا اور دقیق موضوع ہے، جس پر قرآن نے واضح ہدایت دی ہے۔ قرآنِ حکیم نے دعا اور وسیلہ صرف اللہ تعالیٰ سے مانگنے کو اصل عبادت قرار دیا ہے، اور ایسی ہر کوشش جو بندے کو اللہ کے علاوہ کسی ہستی سے دعا یا مدد مانگنے پر مائل کرے، اسے شرکیہ عمل قرار دیا ہے۔ مجاوروں، پیروں یا اولیاء کی قبروں کو وسیلہ بنا کر دعا کرنا اور ان سے مدد چاہنا، قرآن و سنت کی اصل تعلیمات سے انحراف ہے، جو توحید کے خالص عقیدے کو مجروح کرتا ہے۔
قُرآنِ کریم میں فرمایا گیا کہ
وَقَالَ رَبُّكُمُ ٱدْعُونِىٓ أَسْتَجِبْ لَكُمْ ۚ إِنَّ ٱلَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِى سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ
اور تمہارے رب نے فرمایا مجھے پکارو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔ یقیناً جو لوگ میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں وہ ذلیل ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے۔
(غافر 60)
یہ آیت دعا کو عبادت قرار دے رہی ہے اور تاکید کے ساتھ صرف اللہ کو پکارنے کا حکم دے رہی ہے۔ اگر دعا عبادت ہے تو اس کا وسیلہ بھی اسی کی طرف ہونا چاہیے، نہ کہ کسی قبر، مجاور یا ولی کی طرف۔
ایک اور آیت میں فرمایا گیا کہ
ٱلَّذِينَ يَدْعُونَ يَبْتَغُونَ إِلَىٰ رَبِّهِمُ ٱلْوَسِيلَةَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ
یہ لوگ جنہیں (اللہ کے سوا) پکارتے ہیں، وہ خود اپنے رب کی طرف وسیلہ تلاش کرتے ہیں کہ ان میں سے کون زیادہ قریب ہے…
(الإسراء 57)
یہاں اللہ تعالیٰ اُن لوگوں کے عقیدے کو رد فرما رہا ہے جو فوت شدہ صالحین یا فرشتوں کو پکار کر انہیں وسیلہ بناتے ہیں۔ اللہ فرما رہا ہے کہ وہ جنہیں تم پکارتے ہو، وہ خود اپنے رب کا قرب ڈھونڈتے ہیں۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ وسیلہ اللہ کی اطاعت، توحید، اور نیک اعمال کے ذریعے حاصل کیا جانا چاہیے، نہ کہ قبروں یا مجاوروں کے ذریعے۔
وسیلہ صرف اس صورت میں جائز ہے جب بندہ اپنے نیک اعمال، ایمان، یا اللہ کے اسماء و صفات کے ذریعے اللہ سے قرب چاہے۔ یا اللہ کے اسماء الحسنہ کے ذریعے دعا کرے یا پھر کسی زندہ سے اپنے حق میں دعا کرنے کا کہے۔ لیکن اگر کوئی فوت شدہ بزرگ یا نبی کو براہِ راست پکارے یا مافوق الاسباب طور پر انہیں مدد کے لیے آواز دے، تو یہ وہ وسیلہ نہیں جس کی تعلیم قرآن و سنت نے دی ہے، بلکہ یہ ایک خود ساختہ ذریعہ ہے جس کا دین میں کوئی اصل نہیں۔ یہ خالص شرک ہے۔
اسلام ہمیں سکھاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر بندے کے قریب ہے، اور وہ کسی واسطے کے بغیر ہماری پکار سنتا ہے۔ مجاوروں اور قبروں کا وسیلہ بنانا ہمیں اس سیدھی راہ سے ہٹا دیتا ہے جس کی طرف تمام انبیاء نے بلایا۔ اصل وسیلہ تقویٰ، صدقِ دل، اور عملِ صالح ہے۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم ہر دعا میں صرف اللہ کو پکاریں، اُسی پر بھروسا رکھیں، اور اُسی سے مدد چاہیں ، یہی خالص توحید کی روح ہے۔