قبر پر بیٹھ کر مخصوص انداز میں قرآن کی تلاوت کرنا، اور اسے ثواب پہنچانے کا ذریعہ یا رسم سمجھ لینا، قرآن و سنت کی روشنی میں بدعت میں شمار ہوتا ہے۔ دین میں وہی عمل مشروع ہے جسے اللہ تعالیٰ یا نبی کریم ﷺ نے عبادت کے طور پر مقرر فرمایا ہو۔ جب کوئی عمل دین کا حصہ سمجھ کر مخصوص وقت، جگہ یا انداز میں کیا جائے بغیر کسی شرعی دلیل کے تو وہ بدعت کہلاتا ہے، چاہے اس کی نیت کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہو۔
أَمْ لَهُمْ شُرَكَآءُ شَرَعُوا۟ لَهُم مِّنَ ٱلدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَنۢ بِهِ ٱللَّهُ
کیا ان کے (خود ساختہ) شریک ہیں جنہوں نے ان کے لیے دین میں ایسی چیزیں مقرر کیں جن کی اللہ نے اجازت نہیں دی؟
(الشورى 21)
قبرستان قرآن کی تلاوت کی جگہ نہیں نبی ﷺ نے قبروں کے پاس صلوۃ پڑھنے، بیٹھنے، یا ان کو عبادات کی جگہ بنانے سے منع فرمایا۔
قبر پر بیٹھ کر مخصوص انداز سے تلاوت کرنا (جیسے ہر جمعہ، یا کسی خاص دن، یا مخصوص سورتیں) اور اسے دین سمجھنا، شریعت میں داخل کرنا ہے جو کہ بدعت ہے۔
صحابہ کرامؓ اور نبی ﷺ کی سیرت میں کہیں نہیں ملتا کہ وہ قبروں پر بیٹھ کر قرآن مجید پڑھتے، یا اس کے لیے کوئی خاص ترتیب مقرر کرتے۔
وَمَآ ءَاتَىٰكُمُ ٱلرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَىٰكُمْ عَنْهُ فَٱنتَهُوا۟
اور رسول تمہیں جو دے، وہ لے لو، اور جس سے روک دے، رک جاؤ…
(الحشر 7)
نبی ﷺ کی تعلیمات میں صرف اتنا ہے کہ
قبرستان میں جا کر صرف سلام کرو، دعا کرو، عبرت حاصل کرو، لیکن وہاں عبادات نہ کرو۔
(مسلم، نسائی)
لوگو! تم سے پہلے لوگوں نے اپنے انبیاء اور نیک لوگوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا، تم ایسا نہ کرو۔
(بخاری و مسلم)
لہذا قبر پر مخصوص انداز میں قرآن پڑھنا بدعت ہے، اگر اسے مستقل ذریعہِ ثواب سمجھا جائے۔
نیکی صرف وہی ہے جسے اللہ نے مشروع کیا ہو۔
نبی ﷺ اور صحابہؓ کی سنت یہ ہے کہ قبروں پر سلام کہا جائے، عبرت حاصل کی جائے اور دعائے مغفرت کی جائے نہ کہ وہاں بیٹھ کر رسمیں ادا کی جائیں۔
اصل توحید اور اتباع یہ ہے کہ ہم صرف وہی عمل کریں جس کی دلیل قرآن و سنت سے ملتی ہو، اور باقی سب سے اجتناب کریں۔