قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے صاف اور قطعی انداز میں واضح فرمایا ہے کہ صرف اُسی کو پکارا جائے، اور اللہ کے سوا کسی کو مدد کے لیے، حاجت روائی کے لیے یا مشکل کشائی کے لیے پکارنا شرک ہے۔ اللہ تعالیٰ نے توحید کا یہی تقاضا بیان کیا ہے کہ بندہ صرف اپنے رب سے دعا کرے، اُسی سے فریاد کرے، اور اُسی کو حاجت روا سمجھے۔
وَأَنَّ ٱلْمَسَـٰجِدَ لِلَّهِ فَلَا تَدْعُوا۟ مَعَ ٱللَّهِ أَحَدًۭا
اور یہ کہ مساجد صرف اللہ کے لیے ہیں، پس اللہ کے ساتھ کسی اور کو مت پکارو۔
(الجن 18)
یہ آیت نہ صرف مسجد میں بلکہ ہر جگہ صرف اللہ کو پکارنے کی تعلیم دیتی ہے۔ یہاں فَلَا تَدْعُوا مَعَ ٱللَّهِ أَحَدًۭا کا مطلب یہ ہے کہ کسی نبی، ولی، فرشتے، یا کسی اور ہستی کو پکارنا اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانا ہے۔ قرآن کی نظر میں ایسی پکار دعا میں شرک کے مترادف ہے، چاہے وہ زبان سے ہو یا دل میں عقیدت کے ساتھ۔
وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنْ يَدْعُوا مِنْ دُونِ ٱللَّهِ مَن لَّا يَسْتَجِيبُ لَهُۥٓ إِلَىٰ يَوْمِ ٱلْقِيَـٰمَةِ وَهُمْ عَن دُعَآئِهِمْ غَـٰفِلُونَ
اور اس سے زیادہ گمراہ کون ہو سکتا ہے جو اللہ کے سوا اُن کو پکارتا ہے جو قیامت تک بھی اُس کی دعا کا جواب نہیں دے سکتے، بلکہ وہ اُن کی دعا سے غافل ہیں۔
(الأحقاف 5)
یہ آیت ہر اُس پکار کو باطل قرار دیتی ہے جو اللہ کے سوا کسی کی طرف ہو، چاہے وہ زندہ ہو یا فوت شدہ، سننے کے قابل ہو یا نہیں۔ کیونکہ مخلوق کی پکار سننے اور جواب دینے کی طاقت صرف خالق کے پاس ہے۔
نتیجتاً، قرآن کا پیغام بالکل واضح ہے۔
اللہ کے سوا کسی کو نہ پکارا جائے، نہ دل سے حاجت روا یا مشکل کشا سمجھا جائے۔ ایسا کرنا شرک کی صورت اختیار کر لیتا ہے، جو قرآن کی سب سے بڑی ممانعت ہے۔ بندے کا ایمان مکمل تبھی ہوتا ہے جب وہ صرف اور صرف اپنے رب کو پکارتا ہے إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ (ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں)۔