قرآن مجید میں اس بات کا ذکر موجود ہے کہ بعض کفار پر جب قرآن پڑھا جاتا ہے تو وہ ہدایت حاصل کرنے کے بجائے اور زیادہ سرکشی اور انکار میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔
قُلْ يٰٓاَهْلَ الْكِتٰبِ لَسْتُمْ عَلٰي شَيْءٍ حَتّٰي تُقِيْمُوا التَّوْرٰىةَ وَالْاِنْجِيْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ ۭوَلَيَزِيْدَنَّ كَثِيْرًا مِّنْهُمْ مَّآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ طُغْيَانًا وَّكُفْرًا ۚ فَلَا تَاْسَ عَلَي الْقَوْمِ الْكٰفِرِيْنَ
کہو کہ اے اہل کتاب ! جب تک تم تورات اور انجیل کو اور جو اور کتابیں تمہارے پروردگار کی طرف سے تم لوگوں پر نازل ہوئیں ان کو قائم نہ رکھو گے کچھ بھی راستے پر نہیں ہوسکتے اور یہ قرآن جو تمہارے پروردگار کی طرف سے تم پر نازل ہوا ہے ان میں سے اکثر کی سرکشی اور کفر اور بڑھے گا تو تم قوم کفار پر افسوس نہ کرو۔
(المائدہ – 68)
قرآن سن کر سرکشی میں اضافے کا ذکر
وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا هُوَ شِفَاۗءٌ وَّرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ ۙ وَلَا يَزِيْدُ الظّٰلِمِيْنَ اِلَّا خَسَارًا
اور ہم قرآن میں وہ چیز نازل کر رہے ہیں جو مومنوں کے لیے شفا اور رحمت ہے، اور ظالموں کے لیے تو یہ صرف خسارے میں اضافہ ہی کرتا ہے۔
(بنی اسرائیل ۔ 82)
اس آیت سے واضح ہوتا ہے کہ قرآن مومنوں کے لیے رحمت اور ہدایت ہے، لیکن ظالموں کے لیے مزید گمراہی اور نقصان کا باعث بنتا ہے، کیونکہ وہ عناد اور تکبر میں بڑھ جاتے ہیں۔
کفار کی ضد اور عناد
فَمَا لَهُمْ عَنِ التَّذْكِرَةِ مُعْرِضِيْنَ كَاَنَّهُمْ حُمُرٌ مُّسْتَنْفِرَةٌ فَرَّتْ مِنْ قَسْوَرَةٍ
تو انہیں کیا ہوگیا ہے کہ یہ نصیحت سے منہ موڑ رہے ہیں؟ جیسے کہ وہ بدکے ہوئے گدھے ہوں، جو شیر سے بھاگ رہے ہوں!
قرآن کی آیات سن کر بعض کفار کی حالت ایسی ہوتی تھی جیسے کوئی وحشی جانور خوف سے بھاگتا ہے، یعنی وہ ہدایت کو قبول کرنے کے بجائے اور زیادہ مخالفت پر اتر آتے ہیں۔
(المدثر ۔ 49 تا 51)
متکبر کفار کا رویہ
وَلَقَدْ صَرَّفْــنَا فِيْ هٰذَا الْقُرْاٰنِ لِيَذَّكَّرُوْا ۭ وَمَا يَزِيْدُهُمْ اِلَّا نُفُوْرًا
اور ہم نے اس قرآن میں مختلف طریقوں سے سمجھایا تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں، مگر اس (بیان) نے ان کے نفرت میں ہی اضافہ کیا۔
(نبی اسرائیل ۔ 45)
کفار میں سے جو لوگ ہدایت سے محروم ہونا چاہتے ہیں، وہ قرآن کی بار بار وضاحت اور دلیلوں کے باوجود مزید ہٹ دھرمی اور انکار میں بڑھ جاتے ہیں۔
یعنی قرآن ہدایت اور رحمت کے لیے نازل ہوا ہے، لیکن جو لوگ پہلے سے ضدی اور متکبر ہیں، وہ اس سے مزید گمراہ ہو سکتے ہیں کیونکہ وہ سچائی قبول کرنے کے بجائے مخالفت میں بڑھ جاتے ہیں۔
یہ رویہ ان کے اپنے اعمال کا نتیجہ ہوتا ہے، کیونکہ وہ حق کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔
اللہ تعالیٰ قرآن کے ذریعے دلوں کو کھولتا بھی ہے اور سرکشوں کو ان کے تکبر کی وجہ سے گمراہی میں بھی چھوڑ دیتا ہے