جی ہاں، قرآن مجید تمام انسانوں کے لیے مکمل، کافی، اور ہدایت کا کامل ذریعہ ہے۔ اس میں دین کے تمام اصول، عقائد، عبادات، اخلاق، اور نظامِ حیات واضح اور محفوظ طور پر موجود ہیں۔ قرآن کسی قوم، گروہ، یا وقت کے لیے مخصوص نہیں، بلکہ یہ قیامت تک تمام انسانیت کے لیے ہدایت کا سرچشمہ ہے۔ فرمایا
وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ ٱلۡكِتَٰبَ تِبۡيَٰنٗا لِّكُلِّ شَيۡءٖ
“اور ہم نے آپ پر یہ کتاب نازل کی ہے جو ہر چیز کو کھول کر بیان کرنے والی ہے”
(سورۃ النحل: 89)
یہ آیت واضح کرتی ہے کہ قرآن ہر مسئلے کی وضاحت کرتا ہے، چاہے وہ عقیدہ ہو یا عبادت، معاشرت ہو یا معیشت، حق ہو یا باطل۔ لہٰذا جسے قرآن کافی نہ لگے، وہ دراصل اللہ کی وحی پر عدمِ اعتماد کا شکار ہے۔
إِنَّ هَـٰذَا ٱلۡقُرۡءَانَ يَهۡدِي لِلَّتِي هِيَ أَقۡوَمُ
“بیشک یہ قرآن ایسی راہ کی طرف ہدایت دیتا ہے جو سب سے زیادہ سیدھی ہے”
(سورۃ الإسراء: 9)
یعنی یہ قرآن زندگی کے ہر شعبے میں سب سے درست، سیدھا اور محفوظ راستہ دکھاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نبی ﷺ اور صحابہؓ نے دین کی بنیاد قرآن پر رکھی، اور بدعات یا فلسفہ کی طرف رجوع نہ کیا۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
“ترکت فیکم أمرین، لن تضلوا ما تمسکتم بهما: کتاب الله وسنتی”
“میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑ رہا ہوں، جب تک انہیں مضبوطی سے تھامے رکھو گے، کبھی گمراہ نہ ہو گے: اللہ کی کتاب اور میری سنت”
(موطا امام مالک، 1395)
یہ حدیث اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ قرآن بنیادی و کافی ہے، اور نبی ﷺ کی سنت اس کی تشریح و عملی شکل ہے۔ کوئی تیسرا ذریعہ (صوفی کشف، فلسفیانہ تاویل، یا فقہی تقلید) قرآن کا نعم البدل نہیں بن سکتا۔
لہٰذا قرآن ہر انسان کے لیے ہدایت ہے، مکمل دین بیان کرتا ہے، گمراہی سے بچاتا ہے، کافی، واضح اور محفوظ ہے۔ قرآن خود اعلان کرتا ہے کہ
ٱلۡيَوۡمَ أَكۡمَلۡتُ لَكُمۡ دِينَكُمۡ
“آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا”
(سورۃ المائدہ: 3)