کیا قرآن خود کو صرف “مسلمان” کہنے کا حکم دیتا ہے؟

جی ہاں، قرآنِ مجید ہمیں صرف “مسلمان” (مُسلِم) کہنے کا حکم دیتا ہے، نہ کہ بریلوی، دیوبندی، اہل حدیث، شیعہ، سنی، صوفی یا کوئی اور گروہی نام۔ یہ مسئلہ براہِ راست عقیدہ سے متعلق ہے، کیونکہ بندہ جس نام سے پہچانا جائے، اسی فکر اور جماعت سے وابستہ سمجھا جاتا ہے، اور دینِ خالص میں ایسی نسبتیں ناجائز اور گمراہی کا ذریعہ ہیں۔

هُوَ سَمَّاكُمُ الْمُسْلِمِينَ مِن قَبْلُ وَفِى هَٰذَا
“اللہ نے تمہارا نام پہلے بھی اور اس (قرآن) میں بھی مسلمان رکھا ہے”
(سورۃ الحج: 78)

یہ واضح الفاظ اعلان کرتے ہیں کہ نامِ مسلم ہی اللہ کی طرف سے ہے۔ اس کے بعد کسی اور نام یا نسبت کو دین کا جزو بنانا اللہ کی بات کو رد کرنا ہے۔

نبی کریم ﷺ نے خود بھی فرمایا
“من دعا بدعوى الجاهلية، فإنه من جثا جهنم”
“جو جاہلیت کے کسی نام سے پکارے، وہ جہنم کی گٹھریوں میں سے ہے”
(مسند احمد، حدیث 5114)

رسول ﷺ نے یہ نہیں کہا کہ خود کو “حنفی” یا “شافعی” یا “مالکی و حنبلی” کہو، بلکہ صرف “مسلم” کہلانا سکھایا۔ یہی توحید ہے کہ بندہ صرف اللہ کی نسبت اور اس کے رسول کے طریقے پر ہو، اور کسی گروہ یا فرقہ سے اپنا نام نہ جوڑے۔

فرقہ بندی صرف عملی تفرقہ نہیں بلکہ نام، شناخت، اور وفاداری میں بھی شرکِ جماعت ہے۔ قرآن میں ہے۔

وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَ ۝ مِنَ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا۝
“اور مشرکوں میں سے نہ ہو جانا، ان لوگوں میں سے جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور گروہ گروہ ہو گئے”
(سورۃ الروم: 31-32)

لہٰذا، عقیدۂ توحید کے تحت صرف “مسلمان” بننا اور کہلانا ہی دینِ حق ہے، باقی تمام فرقہ وارانہ شناختیں مردود اور حرام ہیں۔ نجات اسی میں ہے۔

جواب لکھیں / رائے دیں

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Related Post

قرآن میں ان لوگوں کو کون سی ہدایت دی گئی ہے جو دوسروں کی بات کا مذاق اُڑاتے ہیں؟قرآن میں ان لوگوں کو کون سی ہدایت دی گئی ہے جو دوسروں کی بات کا مذاق اُڑاتے ہیں؟

قرآنِ حکیم کے مطابق دوسروں کا مذاق اُڑانا صرف ایک اخلاقی خرابی نہیں بلکہ ایک ایمانی کمزوری اور معاشرتی فساد کا ذریعہ ہے۔ یہ عمل