اسلام میں عبادت، دعا، نذر، اور مدد صرف اللہ تعالیٰ کے لیے مخصوص ہے۔ اگر کوئی شخص اللہ کے سوا کسی اور کے لیے نذر مانے، دعا کرے یا مدد طلب کرے، خاص طور پر جب وہ فوت شدہ ہو، تو یہ توحید کے بنیادی اصول کے خلاف ہے۔ قبروں پر منت ماننا اس وقت شرک کے زمرے میں آتا ہے جب اسے حاجت روائی، مشکل کشائی یا کسی قسم کی قدرت کا حامل مانا جائے۔ اسلام نے ہر قسم کی عبادت، خواہ دل کی ہو یا زبان کی، اللہ ہی کے لیے خاص رکھی ہے۔
وَمَا أُمِرُوا۟ إِلَّا لِيَعْبُدُوا۟ ٱللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ ٱلدِّينَ
اور انہیں حکم نہیں دیا گیا تھا مگر یہ کہ خالص اللہ ہی کی عبادت کریں۔
(البینہ 5)
اس آیت میں دین (عبادت، نذر، نیت) کو خالص اللہ کے لیے مخصوص کرنے کا حکم ہے۔ اگر کوئی شخص قبر پر جا کر وہاں کے مکین کے لیے منت مانتا ہے یعنی اگر میرا کام ہو جائے تو فلاں بزرگ کے مزار پر چادر چڑھاؤں گا تو وہ اپنے عمل میں عبادت کا ایک حصہ اللہ کے سوا کسی اور کے لیے مخصوص کر رہا ہے۔ نذر ایک عبادتی عمل ہے، جو صرف اللہ کے لیے جائز ہے۔
نبی ﷺ نے فرمایا من نذر أن یطیع الله فلیطعه، ومن نذر أن یعصی الله فلا یعصه (بخاری)
جو اللہ کی اطاعت میں نذر مانے وہ پوری کرے، اور جو گناہ میں نذر مانے وہ نہ کرے۔
وَلَا تَدْعُ مِن دُونِ ٱللَّهِ مَا لَا يَنفَعُكَ وَلَا يَضُرُّكَ ۖ فَإِن فَعَلْتَ فَإِنَّكَ إِذًۭا مِّنَ ٱلظَّـٰلِمِينَ
اور اللہ کے سوا ایسی ہستیوں کو مت پکارو جو نہ تمہیں نفع دے سکتی ہیں نہ نقصان، اور اگر تم نے ایسا کیا تو یقیناً تم ظالموں میں سے ہو جاؤ گے۔
(یونس 106)
یہ آیت قبر پر منت ماننے اور فوت شدگان سے فریاد کرنے جیسے اعمال کو ظُلم، یعنی شرک قرار دیتی ہے۔ کیونکہ وہ زندہ نہیں، سننے پر قادر نہیں، اور نفع و ضرر کا اختیار نہیں رکھتے۔ نبی ﷺ کی سیرت سے بھی ثابت ہے کہ آپ نے قبروں کو سجدہ کرنے، انہیں عبادت گاہ بنانے، یا ان پر چڑھاوے چڑھانے سے منع فرمایا۔
قرآن اور حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ منت، نذر، اور دعا صرف اللہ کے لیے ہے۔ قبروں پر منت ماننا، اگر یہ عقیدہ ہو کہ وہ بزرگ مدد دے سکتے ہیں، تو یہ شرکِ اکبر ہے۔ اور اگر صرف رسمی روایت یا ثقافتی عادت کے طور پر کیا جائے تب بھی یہ شرک کے قریب ہے اور ممنوع ہے۔ ایک موحّد کا عقیدہ یہ ہونا چاہیے ایاک نعبد و ایاک نستعین ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔(الفاتحہ5)