کیا فرقہ بندی حرام ہے؟

جی ہاں، فرقہ بندی حرام ہے۔ اسلام میں دین کو گروہوں، فرقوں، یا ٹولیوں میں بانٹنا ایک واضح حرام عمل ہے، جس کی قرآن میں سخت مذمت کی گئی ہے، اور نبی کریم ﷺ نے امت کے بٹ جانے کو فتنہ قرار دیا ہے۔ فرقہ بندی دراصل توحیدِ امت کے خلاف، اور شیطان کی چال ہے۔

وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا مِنۢ بَعْدِ مَا جَآءَهُمُ ٱلْبَيِّنَٰتُ ۚ وَأُو۟لَٰٓئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ
“اور ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جنہوں نے تفرقہ ڈالا اور اختلاف کیا، باوجود اس کے کہ ان کے پاس واضح دلیلیں آ چکی تھیں، یہی وہ لوگ ہیں جن کے لیے بڑا عذاب ہے”
(سورۃ آل عمران: 105)
یہ آیت بتاتی ہے کہ فرقہ پرستی صرف لاعلمی کی وجہ سے نہیں بلکہ حق کے باوجود ضد اور عناد کا نتیجہ ہے، اور اللہ کی طرف سے سخت عذاب کا باعث ہے۔

إِنَّ ٱلَّذِينَ فَرَّقُوا۟ دِينَهُمْ وَكَانُوا۟ شِيَعًۭا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِى شَىْءٍ ۚ إِنَّمَآ أَمْرُهُمْ إِلَى ٱللَّهِ ثُمَّ يُنَبِّئُهُم بِمَا كَانُوا۟ يَفْعَلُونَ
“یقیناً جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور گروہ گروہ بن گئے، آپ کا ان سے کوئی تعلق نہیں، ان کا معاملہ تو اللہ کے سپرد ہے، وہی انہیں ان کے اعمال کی خبر دے گا”
(سورۃ الأنعام: 159)
رسول اللہ ﷺ کو ان سے بیزار قرار دیا گیا، تو ہم کس طرح خود کو فرقوں سے وابستہ کر سکتے ہیں؟

وَأَنَّ هَٰذَا صِرَٰطِى مُسْتَقِيمًۭا فَٱتَّبِعُوهُ ۖ وَلَا تَتَّبِعُوا ٱلسُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَن سَبِيلِهِ ۚ ذَٰلِكُمْ وَصَّىٰكُم بِهِۦ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ
“اور بے شک یہ میرا سیدھا راستہ ہے، سو اسی کی پیروی کرو، اور دوسرے راستوں کی پیروی نہ کرو کہ وہ تمہیں اللہ کے راستے سے جدا کر دیں گے، یہی تمہیں وصیت کی گئی ہے تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو”
(سورۃ الأنعام: 153ٰ)
اللہ کا راستہ صرف ایک ہے، باقی سب فرقہ پرستی کے دروازے ہیں۔

وَٱعْتَصِمُوا۟ بِحَبْلِ ٱللَّهِ جَمِيعًۭا وَلَا تَفَرَّقُوا۟ ۚ وَٱذْكُرُوا۟ نِعْمَتَ ٱللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَآءًۭ فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِۦٓ إِخْوَٰنًۭا
“اور اللہ کی رسی کو سب مل کر مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ نہ ڈالو، اور اللہ کی وہ نعمت یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی، سو تم اس کی نعمت سے بھائی بھائی بن گئے”
(سورۃ آل عمران: 103)
فرقہ بازی اللہ کی نعمت سے انکار اور شیطانی تفرقے کو اپنانا ہے۔

إِنَّ ٱلَّذِينَ فَرَّقُوا۟ دِينَهُمْ وَكَانُوا۟ شِيَعًۭا كُلُّ حِزْبٍۢ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ
“یقیناً جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور گروہوں میں بٹ گئے، ہر گروہ اپنے پاس موجود چیز پر خوش ہے”
(سورۃ الروم: 32)
ہر فرقہ اپنے نام، اپنے امیر اور اپنے فقہی یا صوفی عقیدے پر خوش ہے، جبکہ قرآن ان سب کو گمراہ کہتا ہے۔

وَلَا تَكُونُوا۟ مِنَ ٱلْمُشْرِكِينَ ۝ مِنَ ٱلَّذِينَ فَرَّقُوا۟ دِينَهُمْ وَكَانُوا۟ شِيَعًۭا
“اور مشرکوں میں سے نہ ہو جانا، ان لوگوں میں سے جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے کر دیا اور فرقے فرقے بن گئے”
(سورۃ الروم: 31-32)
فرقہ بندی کو قرآن نے مشرکوں کی علامت بتایا، اور مسلمان کو اس سے اجتناب کا حکم دیا۔

وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوٓا۟ إِلَّآ إِيَّاهُ
“اور تمہارے رب نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تم صرف اسی کی عبادت کرو”
(سورۃ الإسراء: 23)
عبادت میں اخلاص کا لازمی نتیجہ یہی ہے کہ بندہ صرف اللہ کے دین پر رہے، اور ہر گروہی رنگ سے بچ جائے۔

إِنَّ هَـٰذِهِۦٓ أُمَّتُكُمْ أُمَّةًۭ وَٰحِدَةًۭ وَأَنَا۠ رَبُّكُمْ فَٱعْبُدُونِ
“یہ تمہاری امت ایک ہی امت ہے، اور میں تمہارا رب ہوں، سو میری عبادت کرو”
(سورۃ الأنبیاء: 92)
اللہ کے نزدیک صرف ایک امت ہے “امتِ مسلمہ” نہ کہ بریلوی، دیوبندی، اہل حدیث، یا شیعہ۔

إِنَّ ٱلَّذِينَ يُفَرِّقُونَ بَيْنَ ٱللَّهِ وَرُسُلِهِۦ وَيُرِيدُونَ أَن يُفَرِّقُوا۟ بَيْنَ ٱللَّهِ وَرُسُلِهِۦ وَيَقُولُونَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍۢ وَنَكْفُرُ بِبَعْضٍۢ
“بیشک وہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسولوں میں تفریق کرتے ہیں، اور چاہتے ہیں کہ بعض پر ایمان لائیں اور بعض کا انکار کریں”
(سورۃ النساء: 150)
جیسے دین میں تفریق حرام ہے، ویسے ہی رسولوں اور تعلیمات میں تفریق بھی گمراہی ہے، اور یہی فرقہ پرستی کی جڑ ہے۔

فَذَرْهُمْ فِى غَمْرَتِهِمْ حَتَّىٰ حِينٍ
“تو انہیں ان کی غفلت میں ہی چھوڑ دے، ایک وقت تک”
(سورۃ المؤمنون: 54)
یہ ان لوگوں کے بارے میں کہا گیا جنہوں نے دین کو گروہوں میں تقسیم کیا، اور ان کا انجام گمراہی ہے، مگر اللہ نے انہیں فی الحال ڈھیل دی ہے۔ فرقہ بندی صرف معاشرتی فساد نہیں، بلکہ عقیدے کا فساد ہے۔ یہ توحید کے بنیادی تصور کے خلاف ہے، جس میں اللہ کی اطاعت و بندگی کا خالص تصور ہو۔ جو مسلمان فرقہ پرستی کو دین بناتے ہیں، وہ عملاً دینِ محمد ﷺ سے ہٹ کر خود ساختہ مسلکی دین پر چلتے ہیں۔ ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ صرف “مسلم” کہلائے، اور رسول اللہ ﷺ اور صحابہؓ کی راہ پر چلے۔ یہی اہلِ نجات کا راستہ ہے۔

جواب لکھیں / رائے دیں

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Related Post

کیا مشرکین کی صلوۃ المیت و دعائے مغفرت کرنی چاہیے؟کیا مشرکین کی صلوۃ المیت و دعائے مغفرت کرنی چاہیے؟

مشرکین کے لیے صلوۃِ جنازہ (صلوٰۃ المیت) پڑھنے اور دعائے مغفرت کرنے سے قرآن و سنت کی روشنی میں ممانعت ثابت ہے۔مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ