کیا “غوث اعظم” کا تصور قرآن سے ثابت ہے؟

اللہ کے علاوہ “غوثِ اعظم” (یعنی سب سے بڑا فریادرس) کا تصور قرآنِ مجید سے ثابت نہیں، نہ نبی ﷺ کی تعلیمات سے، نہ صحابۂ کرامؓ کے عمل سے۔ یہ ایک بدعتی اور غلو پر مبنی عقیدہ ہے جو اللہ کی توحید کے خلاف اور شریعت سے باہر ہے۔

قرآن برملا کہتا ہے کہ
قُلِ ٱللَّهُ يُنَجِّيكُم مِّنْهَا وَمِن كُلِّ كَرْبٍ
“کہو: اللہ ہی تمہیں اس (مصیبت) اور ہر سختی سے نجات دیتا ہے”
(سورۃ الانعام: 64)

قرآن واضح کرتا ہے کہ مصیبت میں فریاد رسی صرف اللہ ہی کرتا ہے۔ کوئی ولی، نبی، یا فرشتہ بھی نجات دہندہ نہیں۔ فرمایا

وَإِن يَمْسَسْكَ ٱللَّهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُۥٓ إِلَّا هُوَ
“اور اگر اللہ تمہیں کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کے سوا کوئی اسے دور نہیں کر سکتا”
(سورۃ الانعام: 17)

یہاں کامل انکار ہے کہ کوئی دوسرا، چاہے کتنا بھی نیک کیوں نہ ہو، اللہ کے معاملے میں حائل نہیں ہو سکتا۔

نبی ﷺ نے فرمایا:
“إذا سألت فاسأل الله، وإذا استعنت فاستعن بالله”
“جب سوال کرو تو صرف اللہ سے کرو، اور جب مدد مانگو تو صرف اللہ سے”
(جامع ترمذی، حدیث: 2516)

نبی ﷺ نے خود بھی کبھی کسی غیراللہ کو مافوق الاسباب “یا غوث” کہہ کر مدد کے لیے نہیں پکارا، نہ کسی صحابیؓ نے۔

جب قرآن کہتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی فریاد رس نہیں، تو اللہ کی مخلوق میں کسی کو “غوث اعظم” کہنا شرک کی طرف لے جانے والا کلمہ ہے جو بعد کے صوفی سلسلوں کی غلو پر مبنی ایجاد ہے۔

“یا غوث الاعظم ادرکنی” جیسے کلمات صریح شرک ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے توحید کے لیے نبی ﷺ کو بھیجا، اور یہ اعلان کروایا:
إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ
“ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں، اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں”
(سورۃ الفاتحہ: 5)

لہٰذا ہر مسلم کو چاہیے کہ صرف اللہ ہی کو فریاد رس مانے، اسی سے دعا کرے، اور ہر غیراللہ سے مدد مانگنے سے بچے، چاہے اسے “غوث” کہا جائے یا کچھ اور۔

جواب لکھیں / رائے دیں

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Related Post

قرآن مجید کی کون سی آیت میں صبح کے وقت قرآن پڑھنے کی تاکید آئی ہے اسکی کیا حکمت ہے؟قرآن مجید کی کون سی آیت میں صبح کے وقت قرآن پڑھنے کی تاکید آئی ہے اسکی کیا حکمت ہے؟

اسکا ذکر اللہ تعالی نے بنی اسرائیل میں فرمایا ہے کہ وَقُرْآنَ ٱلْفَجْرِ ۖ إِنَّ قُرْآنَ ٱلْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا(اور فجر کے وقت قرآن کی تلاوت