عید میلاد النبی ﷺ منانا نہ فرض ہے، نہ سنت، بلکہ یہ دین میں ایجاد کردہ بدعت ہے، جس کا کوئی ثبوت قرآن، حدیث یا صحابہؓ کی زندگی سے نہیں ملتا۔ دین مکمل ہے اس میں کسی اضافے یا کمی کی گنجائش نہیں ہے۔
ٱلۡيَوۡمَ أَكۡمَلۡتُ لَكُمۡ دِينَكُمۡ
آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا۔
(سورۃ المائدہ: 3)
اللہ نے دین مکمل کر دیا، اور نبی ﷺ نے اس مکمل دین کو اُمت تک پہنچا دیا۔ پھر نبی ﷺ کی وفات کے بعد کسی نئی عبادت کا اضافہ گویا دین میں کمی کا دعویٰ ہے اور یہ شریعت کا انکار ہے۔
نبی ﷺ نے فرمایا:
من أحدث في أمرنا هذا ما ليس منه فهو ردّ
جس نے ہمارے دین میں کوئی نئی چیز ایجاد کی، وہ مردود ہے
(صحیح بخاری، حدیث: 2697)
میلاد النبی ﷺ منانا یا اس کو عید بتلانا، جلوس، محفلیں اور مخصوص نعتیں، سب ایسی چیزیں ہیں جو نہ نبی ﷺ نے کیں، نہ صحابہؓ، نہ تابعین کے ادوار میں تھی۔ اگر یہ دین کا حصہ ہوتی تو بہترین نسلیں اس میں ضرور ہم سے آگے ہوتیں۔
میلاد کا پہلا جشن فاطمی خلافت (شیعہ باطنی حکومت) نے مصر میں تقریباً چوتھی یا پانچویں صدی ہجری میں منانا شروع کیا۔ ان کا مقصد عوام میں اپنی مذہبی گرفت مضبوط کرنا اور سیاسی مقبولیت حاصل کرنا تھا۔
بعد میں یہ رسم چھٹی صدی ہجری میں اربل (عراق) کے ایک حاکم مظفر الدین (متوفی 630ھ) نے منظم انداز میں جاری کی، جس میں کھانے، جلوس، محافل، نعتیں اور سجی ہوئی تقریبات شامل تھیں۔ یہ دین میں اختراع ہے۔
نبی ﷺ سے محبت کا اصل طریقہ ان کی اطاعت کرنا، ان کی سنت کو زندہ رکھنا، ان کی سیرت پر عمل کرنا اور ان کے طریقے کے مطابق عبادت کرنا یہی سچی محبت ہے۔ نہ کہ ایسے کام جو نہ قرآن سے ہیں نہ سنت سے۔