کیا علیؓ کو فوری خلافت ملنی چاہیے تھی؟

اسلام کا نظام خلافت شورٰی، اجماع، اور عدل پر قائم کیا گیا۔ نبی کریم ﷺ نے اپنی وفات کے بعد کسی ایک صحابی کو نام لے کر خلیفہ مقرر نہیں فرمایا، بلکہ امت کو یہ اصول سکھایا کہ وہ باہمی مشورے سے اہل ترین کو خلافت دیں۔ اس بنیاد پر ابوبکر صدیقؓ کو خلیفہ بنایا گیا، جس پر بعد میں علیؓ سمیت تمام صحابہؓ نے اجماع کیا۔

وَأَمْرُهُمْ شُورَىٰ بَيْنَهُمْ
“اور ان کے معاملات باہمی مشورے سے طے پاتے ہیں۔”
(سورۃ الشوریٰ: 38)

خلافت کے لیے وحی یا نص صریح کا تقرر نہیں، بلکہ اللہ نے اصول دیا کہ مسلمانوں کے معاملات شورٰی سے طے کیے جائیں۔

نبی ﷺ نے ابوبکرؓ کوامامت کی ذمہ داری دی (مرض الوفات میں) جو اشارہ بالخلافت ہے۔ جو سب سے زیادہ تصدیق کرنے والا (صدیق)، سب سے افضل، سب سے زیادہ قربت والا قرار دیا۔

“يَأبَى اللَّهُ وَالمُسلِمُونَ إِلَّا أَبَا بَكْرٍ”
“اللہ اور مسلمان ابوبکر کے سوا کسی اور کو (خلیفہ بننے سے) انکار کرتے ہیں۔”
(صحیح مسلم، حدیث: 2387)

اس سے نبی ﷺ کی واضح رہنمائی ظاہر ہوتی ہے کہ امت کی خلافت کے لیے ابوبکرؓ سب سے موزوں تھے۔

علیؓ نے نہ صرف ابوبکرؓ کی خلافت کو تسلیم کیا، بلکہ فرمایا:

“أفضل الناس بعد رسول الله: أبو بكر ثم عمر”
“رسول اللہ کے بعد سب سے افضل ابوبکر ہیں، پھر عمر۔”
(مصنف ابن ابی شیبہ، حدیث: 25341 – صحیح)

اور انہوں نے خلافتِ صدیقؓ کے خلاف کبھی خروج نہیں کیا، بلکہ مکمل بیعت کی اور ساتھ دیا۔

نبی ﷺ کی وفات کے بعد مہاجر و انصار کا مشورہ ہوا، اور عمرؓ نے ابوبکرؓ کی خلافت پر دست بیعت دیا۔ بعد میں علیؓ نے بھی بیعت کر لی (صحیح بخاری: 4020)۔

یہ اجماع خلافتِ ابوبکرؓ کو حق ثابت کرتا ہے، اور بعد میں آنے والا ہر اختلاف بلا دلیل شمار ہوتا ہے۔
علیؓ کو خلافت کا مقام بعد میں ملا، اور ان کی خلافت بھی برحق ہے۔

مگر نبی ﷺ کے بعد پہلی خلافت کا حق ابوبکر صدیقؓ کو ہی تھا، جس پر امت کے اجماع اور نبی ﷺ کی اشاراتی سنت کی روشنی میں کوئی اعتراض باقی نہیں رہتا۔

علیؓ نے خود ان تینوں خلفاء کی تائید، بیعت اور عزت کی، اور ان کی خلافت کو غصب نہیں کہا۔ خلافت کا مسئلہ “اجماعِ امت اور صلاحیت” پر ہوتا ہے۔
اور ابوبکرؓ، عمرؓ، عثمانؓ اور علیؓ سب خلفاء راشدین برحق ہیں۔

جواب لکھیں / رائے دیں

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Related Post

ایمان والوں کو سچائی کی تلقین کس انداز سے کی گئی؟ایمان والوں کو سچائی کی تلقین کس انداز سے کی گئی؟

قرآنِ مجید نے ایمان والوں کو سچ بولنے، سچ پر قائم رہنے، اور سچوں کے ساتھ ہونے کی نہایت تاکیدی انداز میں تلقین فرمائی ہے،

قرآن میں نرم گفتاری کی مثال کس نبی کی دی گئی ہے؟قرآن میں نرم گفتاری کی مثال کس نبی کی دی گئی ہے؟

قرآن مجید میں نرم گفتاری کی روشن مثال موسیٰ علیہ السلام کی ہے، جب اللہ تعالیٰ نے انہیں فرعون جیسے جابر و سرکش بادشاہ کے