نہیں، علیؓ کو خلافت کا پہلا حق حاصل نہ تھا، بلکہ خلافت کا پہلا مستحق وہی تھا جسے امت نے اتفاقِ رائے سے چنا، یعنی ابوبکر صدیقؓ۔ خلافت کا نظام قرآن و سنت اور صحابہ کے اجماع کی روشنی میں نصبِ امام پر مبنی ہے، نہ کہ نسب، وراثت، یا خاندان۔
یہ مشاورت ہی قرآن کی رہنمائی ہے
وَأَمْرُهُمْ شُورَىٰ بَيْنَهُمْ
“اور ان کے معاملات آپس کے مشورے سے طے پاتے ہیں”
(سورۃ الشورىٰ: 38)
یہ آیت واضح کرتی ہے کہ مسلمانوں کے اجتماعی فیصلے شوریٰ اور اجماع سے طے ہوں گے، اور یہی اصول خلافت پر بھی لاگو ہوا۔
نبی ﷺ نے اپنی حیات میں کسی خلیفہ کا نام لے کر تعین نہیں کیا، نہ ہی علیؓ کو نامزد کیا۔ بلکہ صحابہؓ کو امت کے معاملات شوریٰ پر چھوڑا۔ اگر علیؓ کو خاص حق ہوتا تو نبی ﷺ خود اعلان کر دیتے پھر صحابہؓ سب سے پہلے انہیں خلیفہ بناتے۔ علیؓ خود پہلے دن مطالبہ کرتے مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔
خلافتِ صدیقؓ پر اجماع ہے
جب نبی ﷺ کی وفات ہوئی تو صحابہؓ نے سقیفہ بنی ساعدہ میں ابوبکر صدیقؓ کو خلیفہ چنا، اور تمام مہاجرین و انصار نے ان کی بیعت کی۔ خود علیؓ نے بھی بعد میں باقائدہ بیعت کی یہ علیؓ کی رضا و تسلیم ہے۔
علیؓ نے ابوبکرؓ، عمرؓ، عثمانؓ تینوں خلفاء کی خلافت کو تسلیم کیا، ان کے مشوروں میں شامل رہے کسی بھی مرحلے پر خلافت کا دعویٰ نہیں کیا۔ اپنے دورِ خلافت میں بھی سابقہ خلفاء کی تعریف کی۔ اگر علیؓ خلافت کے پہلے حق دار ہوتے، تو وہ امت کے اجماع کو باطل نہ مانتے؟
بعض شیعہ و رافضی فرقے کہتے ہیں کہ علیؓ کو “نص صریح” کے تحت خلافت کا حق تھا مگر یہ بات قرآن میں کہیں نہیں، نبی ﷺ کے کسی صحیح حدیث میں نہیں، صحابہؓ میں سے کسی نے بھی نہیں مانی
یہ دعویٰ بدعت اور فرقہ پرستی پر مبنی ہے، جس کا خیر القرون سے کوئی تعلق نہیں۔
یادرہے کہ علیؓ خلیفہ چہارم ہیں، نہ کہ اول۔ خلافت کا معیار سیاست و مشورہ ہے، نہ کہ نسب اور یہ کہ علیؓ نے خود کبھی خلافتِ اول پر اعتراض نہیں کیا۔
اس مسئلے کو بنیاد بنا کر صحابہ پر طعن کرنا اہلِ سنت سے انحراف اور اہلِ بدعت کی روش ہے۔