اسلام میں عبادات، تقریبات اور دینی رسوم کا ماخذ قرآن اور سنتِ نبوی ﷺ ہے۔ دین میں کوئی عمل اگر رسول اللہ ﷺ، صحابہ کرامؓ یا تابعین سے ثابت نہ ہو، تو وہ بدعت شمار ہوتا ہے، چاہے وہ بظاہر نیک نیتی سے کیوں نہ کیا جائے۔ عرس منانا یعنی کسی ولی یا بزرگ کی وفات کے دن کو سالانہ طور پر بطور مذہبی تقریب منانا یہ نہ سنت ہے، نہ مستحب، بلکہ دین میں اضافہ ہے جس کی شریعت میں کوئی اصل نہیں۔
وَمَآ ءَاتَىٰكُمُ ٱلرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَىٰكُمْ عَنْهُ فَٱنتَهُوا۟
اور رسول تمہیں جو کچھ دیں وہ لے لو، اور جس چیز سے منع کریں اس سے رک جاؤ۔
( الحشر 7)
رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوئی، لیکن کسی صحابیؓ نے 12 ربیع الاول کو عرسِ نبوی منایا؟
کیا ابوبکرؓ، عمرؓ، عثمانؓ، علیؓ، یا تابعین نے کبھی کسی ولی یا نبی کی وفات کا دن منایا؟
نہیں! کیونکہ یہ عمل نہ سنت ہے، نہ مشروع۔ یہ عمل بعد کے زمانوں میں پیدا ہوا اور قبروں سے وابستہ بدعات میں شامل ہو گیا۔
قرآن کا اصولی حکم یہی ہے کہ
يَأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ أَطِيعُوا۟ ٱللَّهَ وَأَطِيعُوا۟ ٱلرَّسُولَ
اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو…
(النساء 59)
اطاعت صرف اس کی جو وحی سے ہو۔ دین میں کچھ نیا شامل کرنا، چاہے وہ عرس ہو یا محفل میلاد یہ نبی ﷺ کی تعلیمات سے انحراف ہے۔
من أحدث في أمرنا هذا ما ليس منه فهو رد
جس نے ہمارے دین میں کوئی نیا کام نکالا جو دین میں نہیں تھا، وہ مردود ہے۔
(بخاری و مسلم)
عرس منانا سنت نہیں بلکہ ایک غیر شرعی رسم ہے۔ نہ قرآن میں اس کی بنیاد ہے، نہ حدیث میں، نہ صحابہؓ کے عمل میں۔
یہ عمل لوگوں کو قبروں سے وابستہ کرنے، اور توحید سے دور کرنے کا ذریعہ بنتا ہے۔ دین وہی ہے جو نبی ﷺ نے پہنچایا، باقی سب بدعت ہے۔
الحشر میں فرمایا کہ
نبی جو دیں، اسے لے لو، اور جس سے روکیں، رک جاؤ۔
( الحشر 7)
لہٰذا، یہ عرس کی محفلیں، قبروں کے گرد میلے، اور نذر و نیاز سب غیر شرعی اور قابلِ ترک ہیں۔