کیا صوفی طریقے سے ذکر (مثلًا حلقہِ ذکر) جائز ہے؟

صوفیاء کا مخصوص طریقۂ ذکر، جیسا کہ اجتماعی حلقے بنا کر، اونچی آواز میں اللہ اللہ کہنا، وجد میں آنا، رقص، دف، قوالی یا مخصوص حرکات کے ساتھ ذکر کرنا نہ قرآن سے ثابت ہے، نہ نبی ﷺ کی سنت سے، بلکہ یہ بدعت ہے، جو دین میں نئی باتوں کا داخل کرنا ہے۔

یہ ذکر خود ساختہ انداز کا ذکر ہے اور خود ساختہ طریقہ ہے۔
ٱذۡكُرُواْ ٱللَّهَ ذِكۡرٗا كَثِيرٗا وَسَبِّحُوهُ بُكۡرَةٗ وَأَصِيلًا
“اللہ کا ذکر کثرت سے کرو، اور صبح و شام اس کی تسبیح بیان کرو۔”
(سورۃ الاحزاب: 41-42)

قرآن میں کثرتِ ذکر کا حکم ہے، طریقہ مقرر نہیں کیا گیا، اور نہ ہی ایسی محفلوں یا اجتماعی حرکات کا کوئی ذکر ہے۔

كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَذْكُرُ اللَّهَ عَلَى كُلِّ أَحْيَانِهِ
“نبی ﷺ ہر وقت اللہ کا ذکر کیا کرتے تھے۔”
(صحیح مسلم، حدیث: 373)

نبی ﷺ اور صحابہؓ نے انفرادی، خاموش یا نرم آواز سے ذکر کیا۔

کوئی ایک حدیث بھی نہیں جس میں حلقہ بنا کر اجتماعی، وجد آمیز، یا مخصوص حرکات کے ساتھ ذکر کرنا ثابت ہو۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَٰذَا مَا لَيْسَ مِنْهُ فَهُوَ رَدٌّ
“جس نے ہمارے دین میں کوئی ایسی چیز ایجاد کی جو اس کا حصہ نہیں، وہ مردود ہے۔”
(صحیح بخاری: 2697)

صوفی طریقے دین کے حصہ نہیں، اس لیے وہ مردود ہیں۔

بنی اسرائیل نے بھی عبادت میں اپنی طرف سے رسمیں شامل کیں، جنہیں بعد میں دین سمجھا جانے لگا، اسی طرح صوفی حلقے، رقص، وجد اور اجتماعی ذکر کی صورتیں دین میں داخل کر لی گئیں، حالانکہ نبی ﷺ کی وفات کے بعد کئی صدیوں بعد پیدا ہوئیں۔ ذکر اللہ کا حکم ہے، مگر طریقہ صرف وہی جو نبی ﷺ نے سکھایا۔

صوفیاء کے بنائے ہوئے ذکر کے طریقے نہ وحی سے ہیں نہ خیر القرون سے، لہٰذا وہ بدعت اور بعض اوقات شرک کی طرف لے جانے والے ہوتے ہیں۔

نجات، اللہ کے ذکر میں ہے، مگر سنت کے مطابق، نہ کہ وجد اور قوالی میں۔

لہذا صوفی طریقے سے اجتماعی ذکر، وجد، یا مخصوص حرکات کے ساتھ حلقے بنا کر ذکر کرنا بدعت ہے، اور نبی ﷺ کا طریقہ انفرادی، خشوع و خضوع اور خاموشی کے ساتھ ذکر ہے اور نجات صرف اتباعِ سنت میں ہے۔

جواب لکھیں / رائے دیں

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Related Post

انبیاء نے عقیدہ توحید کے لیے کیا قربانیاں دیں؟انبیاء نے عقیدہ توحید کے لیے کیا قربانیاں دیں؟

قرآن حکیم کے مطابق انبیاء علیہم السلام نے عقیدۂ توحید کے قیام اور تحفظ کے لیے سخت ترین قربانیاں دیں۔ انہوں نے نہ صرف اپنا

وَعَدَ اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ – میں اللہ کا کیا وعدہ ہے؟وَعَدَ اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ – میں اللہ کا کیا وعدہ ہے؟

قرآنِ مجید مؤمن مردوں اور عورتوں کو آخرت کی حقیقی کامیابی کی خوشخبری دیتا ہے، اور ان کے ایمان، اعمال، تقویٰ اور صبر کے بدلے