جب فہم صحابہ، سبیل صحابہ کو قرآن معیار قرار دیتا ہے تو صحابہؓ کے فہم کے بغیر دین صحیح طور پر سمجھا ہی نہیں جا سکتا۔ کیونکہ دین نبی کریم ﷺ سے صحابہؓ نے سیکھا، اسی کو محفوظ کیا، اور اگلی نسلوں تک منتقل کیا۔ قرآن، سنت، شریعت کی اصل عملی تفسیر صحابہ کی زندگی ہے، اور جو ان کے فہم کو چھوڑ دے اس پر اعتماد نہ کرے اور ثابت شدہ ہونے کے بعد بھی اس کا کفر کرے، وہ گمراہی میں پڑتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَٱلسَّـٰبِقُونَ ٱلۡأَوَّلُونَ مِنَ ٱلۡمُهَـٰجِرِينَ وَٱلۡأَنصَارِ وَٱلَّذِينَ ٱتَّبَعُوهُم بِإِحۡسَـٰنٖ رَّضِيَ ٱللَّهُ عَنۡهُمۡ وَرَضُواْ عَنۡهُ
(اور جو مہاجرین اور انصار سب سے پہلے ایمان لائے اور جنہوں نے ان کی اچھے طریقے سے پیروی کی، اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اس سے راضی ہوئے
(سورۃ التوبہ: 100)
یعنی اللہ کی رضا کے لیے صرف صحابہ کی مغفرت نہیں کا یقین نہیں، بلکہ ان کی پیروی بھی شرط ہے۔ جیسا کہ فرمایا
وَمَن يُشَاقِقِ ٱلرَّسُولَ مِنۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ ٱلْهُدَىٰ وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ ٱلْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّىٰ وَنُصْلِهِۦ جَهَنَّمَ ۖ وَسَآءَتْ مَصِيرٗا
اور جو شخص رسول کی مخالفت کرے، ہدایت اس پر واضح ہونے کے بعد بھی، اور مؤمنوں کے راستے کے سوا کسی اور راہ پر چلے، تو ہم اسے اسی راہ پر چھوڑ دیتے ہیں جس کی طرف وہ گیا، اور اسے جہنم میں داخل کریں گے، اور وہ بدترین ٹھکانا ہے۔
(النساء:115)
آیت واضح کر رہی ہے کہ رسول ﷺ کی مخالفت اور مؤمنین کی راہ سے انحراف کا انجام جہنم ہے، چاہے ظاہری دعویٰ ایمان ہو۔ “سَبِيلِ ٱلْمُؤْمِنِينَ” سے مراد صحابہ کرامؓ کا راستہ ہے، کیونکہ وہی ایمان میں سب سے پہلے اور سب سے بہتر تھے۔ ان کی مخالفت، رسول کی مخالفت شمار ہوتی ہے۔
جو شخص صحابہؓ، تابعینؒ، اور اہل سنت کے راستے کو چھوڑ کر کوئی الگ فہم، تصوف، کشف، ولایت، خواب یا “عقلی” تاویل اختیار کرے، اس کے لیے یہ آیت سخت وعید ہے۔ ہدایت واضح ہو جانے کے بعد انکار کفر کی علامت ہے۔
آیت میں “مِنۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ ٱلْهُدَىٰ” آیا ہے، یعنی اگر کسی پر حق واضح ہو جائے، اور وہ پھر بھی انحراف کرے، تو اللہ اسے اس کی گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے، اور جہنم کا مستحق بنا دیتا ہے۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
“عليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهديين من بعدي”
“تم پر لازم ہے میری سنت اور میرے بعد ہدایت یافتہ خلفاء (یعنی صحابہؓ) کی سنت پر عمل کرنا”
(سنن ابی داود، حدیث: 4607)
یعنی دین صرف حدیث کے الفاظ میں نہیں، بلکہ صحابہؓ کے فہم و عمل کے ساتھ سمجھنا لازم ہے۔
قرآن کو ہر کوئی اپنی مرضی سے تاویل کرے گا، احادیث کو سیاق و سباق سے کاٹ کر نئے نظریات بنائے جائیں گے، خواب، کشف، اور فلسفہ دین کا متبادل بن جائے گا، دین کی بنیاد وحی سے ہٹ کر عقلی تعبیرات پر چلی جائے گی، یہی کام خوارج، معتزلہ، روافض اور صوفی باطنیت نے کیا، جنہوں نے صحابہؓ کے فہم کو رد کر کے فرقے بنائے اور دین میں نئی بدعتیں گھڑیں۔ لہٰذا جو صحابہؓ کے فہم کے بغیر قرآن و سنت سمجھنے کا دعویٰ کرے، وہ ہدایت سے محروم ہو جاتا ہے۔