جی ہاں، شریعتِ اسلامیہ کے مطابق شفاء، حاجت روائی، نفع و نقصان کا اختیار صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ قرآنِ مجید نے بار بار اس حقیقت کو واضح کیا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی نہ شفاء دے سکتا ہے، نہ کسی کی دعا قبول کر سکتا ہے، نہ کسی کو نفع پہنچا سکتا ہے اور نہ کسی نقصان کو روک سکتا ہے۔ بندوں کو حکم ہے کہ وہ اپنی تمام حاجات اور مشکلات میں صرف اللہ ہی کی طرف رجوع کریں۔
وَإِن يَمْسَسْكَ ٱللَّهُ بِضُرٍّۢ فَلَا كَاشِفَ لَهُۥٓ إِلَّا هُوَۖ وَإِن يُرِدْكَ بِخَيْرٍۢ فَلَا رَآدَّ لِفَضْلِهِۦ
اگر اللہ تجھے کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کے سوا کوئی اسے دور کرنے والا نہیں، اور اگر وہ تیرے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرے تو کوئی اس کے فضل کو روک نہیں سکتا۔
(یونس 107)
یہ عقیدہ اسلام کے بنیادی اصول توحید سے جڑا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو ہی نافع و ضار (نفع و نقصان دینے والا)، شافی (شفا دینے والا) اور قاضی الحاجات (حاجتیں پوری کرنے والا) ماننا، توحیدِ الوہیت کا تقاضا ہے۔ اس عقیدے کے خلاف جانا، کسی اور سے شفاء یا مدد مانگنا، انسان کو شرک کی حد تک لے جاتا ہے۔
قُلْ مَن رَّبُّ ٱلسَّمَـٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ قُلِ ٱللَّهُ ۖ قُلْ أَفَٱتَّخَذْتُم مِّن دُونِهِۦٓ أَوْلِيَآءَ لَا يَمْلِكُونَ لِأَنفُسِهِمْ نَفْعًۭا وَلَا ضَرًّۭا
پوچھو آسمانوں اور زمین کا رب کون ہے؟ کہو اللہ۔ پھر کہو کیا تم نے اللہ کے سوا ایسے کارساز بنا رکھے ہیں جو اپنے لیے بھی نفع و نقصان کے مالک نہیں؟
(الرعد 16)
رسول اللہ ﷺ نے خود صرف اللہ تعالیٰ سے دعا کی، شفا مانگی، حاجت روائی چاہی اور کسی قبر یا بزرگ کے سامنے کبھی عرضی نہ رکھی۔ آپ نے فرمایا
إذا سألتَ فاسألِ اللَّهَ، وإذا استعنتَ فاستَعِن باللَّهِ
جب مانگو، تو اللہ ہی سے مانگو، اور جب مدد چاہو، تو اللہ ہی سے چاہو۔
(ترمذی 2516)
قرآن و سنت کی روشنی میں، شفا صرف اللہ کی طرف سے ہے، حاجت روائی اللہ کے اختیار میں ہے،
نفع و نقصان صرف وہی پہنچا سکتا ہے، لہٰذا کسی مردہ، ولی، پیر، یا نبی سے شفا یا مدد مانگنا شرعاً باطل اور شرک ہے۔
اسلام کا پیغام بالکل واضح ہے
وَإِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِ
اور جب میں بیمار ہوتا ہوں تو وہی (اللہ) شفا دیتا ہے۔
(الشعراء 80)