کیا زبانی و رسمی تقویٰ اختیار کرنا چاہیے؟

قرآنِ مجید نے اہلِ ایمان کو اللہ تعالیٰ کا سچا اور خالص تقویٰ اختیار کرنے کا حکم دیا ہے۔ ایسا تقویٰ جو زندگی کے ہر پہلو میں ظاہر ہو، نہ کہ صرف زبان یا رسموں تک محدود ہو۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ ٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِۦ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو جیسا کہ اُس سے ڈرنے کا حق ہے، اور تمہیں موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم مسلمان ہو۔
(آل عمران 102)

تقویٰ کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ سے ڈرنا ہر اس مقام پر جہاں انسان گناہ کی طرف مائل ہو۔ احکامِ الٰہی پر عمل کرنا، چاہے فائدہ نظر آئے یا نہ آئے۔ حرام سے بچنا، چاہے کوئی دیکھے یا نہ دیکھے۔ صحابہ کرامؓ اس تقویٰ کو اختیار کرتے تھے کہ اگر کسی غلطی سے بھی پھسل جاتے تو فوراً توبہ کرتے، اور ہر وقت اللہ کو یاد رکھتے۔

بہرحال اہل ایمان کو ایسا تقویٰ اختیار کرنا چاہیے جو دل میں ہو، زبان پر ہو، اور عمل میں بھی ظاہر ہو۔ جو انہیں ہر حال میں اللہ کے قریب کرے، اور گناہ سے روکے۔ جو نفاق، دنیا پرستی، اور ریاکاری سے دور رکھے۔ یہی حق تقویٰ ہے جو زندگی کو سنوارتا ہے، اور موت کو ایمان کے ساتھ سجاتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Related Post