اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کے درجات مقرر فرمائے ہیں۔ “رضی اللہ عنہ” کہنا دراصل اللہ کی رضا کی گواہی دینا ہے، جو قرآن میں بلخصوص صحابہؓ کے لیے صراحت سے آئی ہے۔ فرمایا
وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ
“مہاجرین و انصار میں سے پہلے سبقت لے جانے والے اور وہ لوگ جو ان کی پیروی کرتے ہیں احسان کے ساتھ، اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔”
(سورۃ التوبہ: 100)
یہاں “رضی اللہ عنہم” کا صریح اطلاق صحابہ کرام اور وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ یعنی غیر صحابی پر کیا گیا، اور یہ اللہ کی سند ہے، جس کی پیروی امت کرتی ہے۔ صحابہ کے بعد تابعین، ائمہ، اولیاء وغیرہ کے لیے “رحمہ اللہ” یا “غفر الله له” جیسے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں۔
علمائے کرام اور محدثین نے اس اصطلاح کو ادباً صحابہ کے لیے مختص کیا ہے، کیونکہ اللہ نے ان کی رضا کی خبر دی ہے۔ “رضی اللہ عنہ” کہنا اللہ کی رضا کی گواہی دینا ہے۔ اگر آج دور حاضر میں کسی مومن کے لئے کہا جائے تو بطور دعا کہنا جائز ہے۔ کہ اللہ ان سے راضی ہوجائے۔