اسلام میں عبادات کی ادائیگی کا طریقہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے طے فرمایا ہے۔ جس عبادت کو انفرادی بتایا گیا ہے، اسے انفرادی کیا جائے، اور جسے اجتماعی یا جہری کہا گیا ہو، اسی انداز سے کیا جائے۔ اگر کوئی ایسی شکل ایجاد کی جائے جو نہ نبی ﷺ سے ثابت ہو، نہ صحابہؓ سے، تو وہ دین میں اضافہ ہے، یعنی بدعت۔ دین اللہ نے نازل کیا ہے، تم اپنی طرف سے کچھ نہ گھڑو۔
نبی کریم ﷺ نے درود و سلام کا حکم تو دیا ہے، مگر اسے اجتماعی یا بلند آواز سے مخصوص اوقات میں پڑھنے کا نہ حکم دیا نہ عمل کیا۔ درود و سلام کی عبادت انفرادی و سری ہے
صحابہؓ نبی ﷺ سے سب سے بڑھ کر محبت کرتے تھے، مگر ان سے نہ درود کے لیے مخصوص اجتماعات ثابت ہیں، نہ جمعے کی رات اجتماعی سلام، نہ جلوسوں میں نعرے۔
اگر یہ عمل خیر ہوتا تو سب سے پہلے ابوبکرؓ، عمرؓ، عثمانؓ، علیؓ کرتے، مگر ان سے کچھ بھی ثابت نہیں۔
نبی ﷺ کے کلام میں بدعت کی واضح ممانعت ہے: فرمایا
مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هٰذَا مَا لَيْسَ فِيهِ فَهُوَ رَدٌّ
“جس نے ہمارے دین میں کوئی نیا کام گھڑا، جو اس میں نہیں تھا، وہ مردود ہے۔”
(صحیح بخاری: 2697)
دین کے نام پر خودساختہ آواز بلند کرکے درود پڑھنا، یا مخصوص جگہوں پر اجتماعی پڑھنا بدعت ہے۔ اگر کسی انفرادی عمل کو باقاعدہ اجتماعی اور بلند آواز سے کیا جانے لگے تو وہ بدعت بن جاتا ہے۔ دین مکمل ہے اس میں کچھ داخل یا خارج کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔
“اليوم أكملتُ لكم دينكم…”
“آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا…”
(سورۃ المائدہ: 3)
“وَمَنْ يَّبْتَـغِ غَيْرَ الْاِسْلَامِ دِيْنًا فَلَنْ يُّقْبَلَ مِنْهُ ۚ وَھُوَ فِي الْاٰخِرَةِ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ”
اور جس نے اسلام کے سوا کوئی اور طریقہ اختیار کرنا چاہا وہ اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا، اور وہ آخرت میں یقینا خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہوگا۔
(سورۃ آل عمران-85)