اسلام میں خلافت کا مقصد اللہ کی زمین پر اللہ کے دین کو غالب کرنا ہے، نہ کہ بادشاہی قائم کرنا۔ نبی کریم ﷺ نے خلافتِ راشدہ کے بعد ملوکیت (بادشاہت) کے آنے کی خبر دی، اور یہ پیشگوئی نبوی حکمت کا حصہ تھی، جس میں امت کو فتنوں سے آگاہ کیا گیا۔ مگر یاد رہے کہ ملوکیت کا آنا عقیدۂ توحید کی نفی نہیں کرتا، البتہ خلافتِ راشدہ کی طرز حکومت سے انحراف ضرور ہے۔
خلافتِ راشدہ کے خلفاء کی تعداد چار نہیں ہے بلکہ بارہ بیان فرمائی کہ:
جبیر بن مطعم (رض) سے روایت ہے کہ معاویہ (رض) کو یہ خبر پہنچی اور اس وقت محمد بن جبیر قریش کی ایک جماعت کے ساتھ معاویہؓ کے پاس تھے) کہ عبداللہ بن عمرو بن عاص کہتے ہیں کہ قحطان (کے قبیلہ) میں سے کوئی بادشاہ ہوگا کہ معاویہ غضبناک ہو کر کھڑے ہوگئے پھر اللہ تعالیٰ کی تعریف کی جیسی کہ اس کے لائق ہے اس کے بعد فرمایا مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ تم میں سے کچھ لوگ ایسی باتیں کرتے ہیں جو کتاب اللہ میں نہیں ہیں اور نہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منقول ہیں یہی لوگ تمہارے جہاں ہیں خبردار ! تم گمراہ کن خیال پیدا نہ کرو میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے تھے کہ
“إِنَّ هَذَا الْأَمْرَ فِي قُرَيْشٍ لَا يُعَادِيهِمْ أَحَدٌ إِلَّا كَبَّهُ اللَّهُ عَلَى وَجْهِهِ مَا أَقَامُوا الدِّينَ”.
یہ خلافت قریش میں رہے گی اور جو بھی ان سے دشمنی کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو سرنگوں اور اوندھا کر دے گا جب تک وہ (قریش) دین کو قائم رکھیں گے۔
(صحیح بخاری:جلد دوم:کتاب الانبیاء:حدیث نمبر 3500)
اسی طرح فرمایا کہ
لَا يَزَالُ هَذَا الدِّينُ عَزِيزًا إِلَى اثْنَيْ عَشَرَ خَلِيفَةً، كُلُّهُمْ مِنْ قُرَيْشٍ
“یہ دین (اسلام) ہمیشہ غالب اور مضبوط رہے گا جب تک بارہ خلیفہ ہوں گے، اور وہ سب کے سب قریش میں سے ہوں گے۔”
(صحیح مسلم:کتاب: الامارۃ :حدیث نمبر:1821)
خلافتِ راشدہ نبوی طرز کی خلافت تھی، جو عدل، شورىٰ، اور تقویٰ پر مبنی تھی۔ جیسا کہ نبی ﷺ نے پیشگوئی فرمائی۔ تاہم یہ تبدیلی نبی ﷺ کی پیشگوئی کے مطابق تھی، اور اس میں امت کے لیے تنبیہ اور صبر کا درس ہے۔