کیا حدیثِ واحد سے عقیدہ ثابت ہو سکتا ہے؟

جی ہاں، صحیح حدیثِ واحد سے عقیدہ ثابت ہو سکتا ہے اگر وہ صحیح السند ہو، قرآن و سنت کے مخالف نہ ہو، اور امت کے اجماع سے متصادم نہ ہو۔

وَمَا آتَىٰكُمُ ٱلرَّسُولُ فَخُذُوهُ
“اور جو کچھ رسول تمہیں دیں، وہ لے لو”
(سورۃ الحشر: 7)

یہ حکم عمومی ہے، چاہے رسول ﷺ کا فرمان ایک صحابی کے ذریعے پہنچے یا جماعت کے ذریعے۔ یعنی رسول کی بات حجت ہے، نہ کہ راویوں کی تعداد۔

نبی ﷺ نے معاذؓ کو یمن بھیجا اور صرف ایک صحابی کو پورے علاقے میں دین سکھانے اور عقیدہ بیان کرنے کے لیے بھیجا، اور فرمایا:

“اللهم فقهه في الدين وعلمه التأويل”
“اے اللہ! اسے دین کا فقیہ بنا اور تاویل (سمجھ) عطا فرما”
(صحیح بخاری، حدیث: 143)

اگر ایک صحابی کی روایت یا تعلیم معتبر نہ ہوتی، تو نبی ﷺ کسی قوم کو اس پر ایمان لانے کا حکم نہ دیتے۔

معتزلہ، روافض، اور عقل پرست فرقے حدیثِ واحد سے عقیدہ نہ لینے کا عقیدہ رکھتے تھے، اور انہوں نے اسی بنیاد پر عذاب برزخ، نزولِ مسیح، حوضِ کوثر، اور شفاعت جیسے عقائد کا انکار کیا، حالانکہ وہ سب صحیح احادیث سے ثابت ہیں۔

حدیثِ واحد اگر صحیح السند ہے تو وہ دین میں حجت ہے، چاہے وہ عقیدہ ہو یا عمل۔ اہل حق کا عقیدہ یہ ہے کہ صحیح حدیثِ واحد عقیدہ بھی ثابت کر سکتی ہے، اور اس کا انکار گمراہی ہے۔

جواب لکھیں / رائے دیں

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Related Post

توحید ربوبیت، الوہیت، اسماء و صفات میں فرق بیان کریں۔توحید ربوبیت، الوہیت، اسماء و صفات میں فرق بیان کریں۔

توحید (یعنی اللہ کی یکتائی) کی معرفت قرآن و سنت کے مطابق تین بنیادی اقسام پر مشتمل ہے توحید ربوبیت، توحید الوہیت، اور توحید اسماء