کیا تمام انبیاء دین پر معاوضہ لینے سے انکار کرتے رہے؟ یہ قانون کی بالادستی ہے یا اس میں کچھ حکمت ہے؟

جی ہاں، تمام انبیاء علیہم السلام دین کی تبلیغ پر کسی بھی قسم کے دنیاوی معاوضے سے انکار کرتے رہے۔ قرآن مجید میں کئی مقامات پر یہ بات دہرائی گئی ہے کہ انبیاء نے اپنی قوموں کو دعوت دیتے وقت یہ واضح کیا کہ وہ اس کا کوئی اجرت یا بدلہ نہیں مانگتے، بلکہ ان کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے۔ مثلاً، یٰسین میں نبیوں کا قول نقل کیا گیا

اتَّبِعُوا مَن لَّا يَسْـَٔلُكُمْ أَجْرًۭا وَهُم مُّهْتَدُونَ۝
ان کی پیروی کرو جو تم سے کسی اجر کا سوال نہیں کرتے اور وہ خود بھی ہدایت یافتہ ہیں۔
(یٰسین – 21)
اسی طرح، نوح، ہود، صالح، شعیب علیہم السلام سمیت کئی انبیاء کی قوموں کو یہ الفاظ بار بار سنائے گئے

وَمَآ أَسْـَٔلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ ۖ إِنْ أَجْرِىَ إِلَّا عَلَىٰ رَبِّ ٱلْعَٰلَمِينَ۝
اور میں تم سے اس (تبلیغ) پر کوئی اجر نہیں مانگتا، میرا اجر تو بس رب العالمین کے ذمے ہے۔
(الشعراء – 109)

خودخَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ محمد ﷺ سے بھی یہی اعلان کروایا گیا کہ
اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ هَدَى اللّٰهُ فَبِهُدٰىهُمُ اقْتَدِهْ ۭ قُلْ لَّآ اَسْــــَٔـلُكُمْ عَلَيْهِ اَجْرًا ۭاِنْ هُوَ اِلَّا ذِكْرٰي لِلْعٰلَمِيْنَ۝
یہی وہ لوگ ہیں جنھیں اللہ نے ہدایت عطا فرمائی تو آپ ان کے طریقہ پر چلیں آپ فرما دیجیے میں تم سےنہیں مانگتا اس (تبلیغ) پر کوئی اَجر ، یہ تو تمام جہان والوں کے لیے ایک نصیحت ہے۔
(الانعام – 90)

یہ صرف قانون کی بالادستی نہیں بلکہ اس میں کئی گہری حکمتیں پوشیدہ ہیں

  1. دین کی سچائی کو قائم کرنا
    اگر نبی کسی مادی مفاد کے خواہاں ہوتے، تو ان کے اخلاص پر سوال اٹھ سکتا تھا۔ انبیاء کا بلا معاوضہ تبلیغ کرنا ثابت کرتا ہے کہ وہ محض اللہ کے حکم کی پیروی کر رہے ہیں اور کسی ذاتی فائدے کے خواہاں نہیں۔
  2. دعوت میں اثر اور خلوص
    جب کسی بھی کام کے پیچھے مالی غرض نہ ہو تو لوگوں پر اس کا اثر زیادہ ہوتا ہے۔ انبیاء نے بغیر کسی ذاتی فائدے کے صرف اللہ کی رضا کے لیے دین کی دعوت دی، اس لیے ان کی باتیں لوگوں کے دلوں میں اتر جاتی تھیں۔
  3. امتیازِ حق و باطل
    دنیاوی قائدین اکثر اپنی قیادت کو برقرار رکھنے کے لیے مالی اور مادی فوائد حاصل کرتے ہیں، جبکہ انبیاء علیہم السلام کا طریقہ کار اس سے بالکل مختلف تھا۔ یہ چیز سچے نبی اور جھوٹے مدعی میں فرق واضح کر دیتی ہے۔
  4. آزمائش اور خالص پیروی
    اگر انبیاء کسی مادی انعام کے طلبگار ہوتے، تو لوگ دین کو کاروبار سمجھ کر اختیار کرتے۔ لیکن جب نبی صرف اللہ کے لیے دعوت دیتے ہیں، تو صرف وہی لوگ اس کو قبول کرتے ہیں جو سچائی کو سمجھ کر خالص نیت سے ایمان لاتے ہیں۔
  5. دین کی حفاظت
    اگر دین کی تبلیغ کو دنیاوی اجرت سے جوڑ دیا جائے تو اس کے غلط استعمال کا خدشہ پیدا ہو سکتا ہے۔ جسکی واضح مثال حق کو چھپانا ہے۔ جبکہ نبیوں نے دین کو ہر قسم کے دنیاوی مفادات سے پاک رکھا تاکہ حق و باطل کو کھول کھول کر بیان کردیا جائے اور یہ ہمیشہ ایک خالص اور نفع بخش ہدایت کے طور پر باقی رہے۔
    اور یاد رہے کہ تمام انبیاء کا دین کی تبلیغ پر معاوضہ نہ لینا محض قانون کی بالادستی نہیں بلکہ ایک حکمتِ الٰہی کا حصہ ہے۔ یہی اصول آج بھی علماء، داعیانِ دین اور ہر نیکی کی دعوت دینے والے کے لیے مشعلِ راہ ہے کہ وہ دین کو تجارت بنا کر اللہ کی آیات کا کھلم کھلا کفر نہ کریں، بلکہ اللہ کی رضا کے لیے خلوص سے اس پر مکمل ایمان لا کر اس کی خدمت کریں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Related Post

انبیاء نے اپنی دعوت میں عقیدہ آخرت کو کیوں شامل کیا؟انبیاء نے اپنی دعوت میں عقیدہ آخرت کو کیوں شامل کیا؟

انبیاء علیہم السلام کی دعوت میں عقیدۂ آخرت کو اس لیے مرکزی حیثیت دی گئی، کیونکہ یہ عقیدہ انسان کی سوچ، نیت اور عمل کو سنوارتا ہے۔ آخرت کا یقین

کیا تمام انبیاء کا عقیدہ ایک جیسا تھا؟کیا تمام انبیاء کا عقیدہ ایک جیسا تھا؟

قرآن مجید کی روشنی میں تمام انبیاء کا عقیدہ، پیغام اور مقصد ایک ہی تھا اللہ کی توحید، اس کی عبادت، اور شرک سے اجتناب۔ مختلف قوموں، زبانوں اور زمانوں